ایک ایسے آدمی کی کہانی جس کو معاشرے نے ٹھکرایا لیکن جب اسکےپاس طاقت آئی تو اس نے زمانے کو جھکنے پر مجبور کر دیا
کہانی میں سیکس اور ہلکی پھلکی شاعری شامل ہے
کہانی میں سیکس اور ہلکی پھلکی شاعری شامل ہے
एक ऐसे शख्स की कहानी जिसे समाज ने खारिज कर दिया लेकिन जब सत्ता मिली तो उसने वक्त को झुकने पर मजबूर कर दिया।ایک ایسے آدمی کی کہانی جس کو معاشرے نے ٹھکرایا لیکن جب اسکےپاس طاقت آئی تو اس نے زمانے کو جھکنے پر مجبور کر دیا
کہانی میں سیکس اور ہلکی پھلکی شاعری شامل ہے
for the story Bhaiپری زاد
پہلی قسط
پری زاد کالج سے واپس لوٹا تو گھر میں خاموشی تھی اس نے سعیدہ سے پوچھا کہ اس وقت اتنی خاموشی کیسے ممکن ہے
خیر اس نے منہ ہاتھ دھو کر کھانا کھایا اور پھر باہر نکل کر سہانا موسم کا مزہ لینے لگا کہ اس کو بھائیوں والے حصے میں سے آہ آہ کی آوازیں سنائی دینے لگی تھی آگے بڑھ کر اس نے اکبر کے کمرے میں جھانکا تو وہ اپنی بیوی کو گھوڑی بنا کر لن گھسا کر جھٹکے مارنے لگا تھا اسکی بیوی كبرا کے ممے اور بنڈ مناسب تھی اکبر نے زور زور کے جھٹکے مار کر چھوٹ گیا اور منی اس نے اپنی بیوی کی بنڈ پر نکال دی مگر پری کی حیرت اس وقت بڑھی جب اس نے اکبر کا لن دیکھا کہ چھوٹا اور پتلا تھا کہ اس کی بیوی ناراض تھی
اگلی صبح وه کالج جانے کے لئے باہر نکلا تو اکبر اپنی بیوی کو منا رہا تھا خیر وه بس پر سوار ہوا تو اسکی نظر ناہیدپرپڑی تو وہ حیران رہ گیا تھا کہ وہ اس کی کالج فیلو نکل آئی تھی اس کے موٹے ممے اور باہر نکلی بنڈ قیامت خیز تھے اس رات وه اپنی چھت پر بیٹھ کر سگریٹ پی رہا تھا کہ اس کی نظر ناہید کے صحن میں لٹکی ہوئی برا پر جا پڑی جو کہ کالے رنگ کی تھی ساتھ کالی پینٹی بھی تھی
وه دیکھ کر حیران رہ گیا تھا خیر وه نیچے اترا اور اپنے کمرے کی جانب چلنے لگا کہ اس نے دیکھا کہ کامل کے کمرے کا دروازہ ہلکا سا کھلا ہوا ہے اس کی نظر اندر تک گئی تو اس نے دیکھا کہ کامل کی بیوی اکبری گھوڑی کی حالت میں میاں کا لوڑا اندر لے رہی تھی
اسکے ممے اور بنڈ کبرا کے مقابلے میں بڑے تھے اس نے دونوں بھابھیوں کو چودنے کا پلان بنایا اور اپنے کمرے میں چلا گیا صبح وه کالج میں کلاس میں بھی ناہید کو دیکھتا رہا تھا واپسی پر پر محلے کا آوارہ لونڈا شوکی کے پاس پہنچ گیا شوکی اسے دیکھ کر حیران رہ گیا پری اس سے بولا کہ مجھے ناہید کی لینی ہے شوکی مزید حیران رہ گیا مگر اس نے حامی بھر لی رات کو وه سگریٹ پی رہا تھا اس نے دیکھا کہ ناہید پانی والے پائپ سے نہا رہی تھی اور اس کے کپڑے اترے ہوۓ تھے صرف برا اور پینٹی پہنی ہوئی تھی یہ دیکھ کر اسکے جذبات گرم ہو گۓ تھے
Okfor the story Bhai
Jnaab Aapko Ise Google Translate ki madad se translate karke post karna chahiye tha yha pr, Chahe to aap ise Urdu catagery me bhi rakh sakte hai...
Achchi shuruwat h bhaiپری زاد
پہلی قسط
پری زاد کالج سے واپس لوٹا تو گھر میں خاموشی تھی اس نے سعیدہ سے پوچھا کہ اس وقت اتنی خاموشی کیسے ممکن ہے
خیر اس نے منہ ہاتھ دھو کر کھانا کھایا اور پھر باہر نکل کر سہانا موسم کا مزہ لینے لگا کہ اس کو بھائیوں والے حصے میں سے آہ آہ کی آوازیں سنائی دینے لگی تھی آگے بڑھ کر اس نے اکبر کے کمرے میں جھانکا تو وہ اپنی بیوی کو گھوڑی بنا کر لن گھسا کر جھٹکے مارنے لگا تھا اسکی بیوی كبرا کے ممے اور بنڈ مناسب تھی اکبر نے زور زور کے جھٹکے مار کر چھوٹ گیا اور منی اس نے اپنی بیوی کی بنڈ پر نکال دی مگر پری کی حیرت اس وقت بڑھی جب اس نے اکبر کا لن دیکھا کہ چھوٹا اور پتلا تھا کہ اس کی بیوی ناراض تھی
اگلی صبح وه کالج جانے کے لئے باہر نکلا تو اکبر اپنی بیوی کو منا رہا تھا خیر وه بس پر سوار ہوا تو اسکی نظر ناہیدپرپڑی تو وہ حیران رہ گیا تھا کہ وہ اس کی کالج فیلو نکل آئی تھی اس کے موٹے ممے اور باہر نکلی بنڈ قیامت خیز تھے اس رات وه اپنی چھت پر بیٹھ کر سگریٹ پی رہا تھا کہ اس کی نظر ناہید کے صحن میں لٹکی ہوئی برا پر جا پڑی جو کہ کالے رنگ کی تھی ساتھ کالی پینٹی بھی تھی
وه دیکھ کر حیران رہ گیا تھا خیر وه نیچے اترا اور اپنے کمرے کی جانب چلنے لگا کہ اس نے دیکھا کہ کامل کے کمرے کا دروازہ ہلکا سا کھلا ہوا ہے اس کی نظر اندر تک گئی تو اس نے دیکھا کہ کامل کی بیوی اکبری گھوڑی کی حالت میں میاں کا لوڑا اندر لے رہی تھی
اسکے ممے اور بنڈ کبرا کے مقابلے میں بڑے تھے اس نے دونوں بھابھیوں کو چودنے کا پلان بنایا اور اپنے کمرے میں چلا گیا صبح وه کالج میں کلاس میں بھی ناہید کو دیکھتا رہا تھا واپسی پر پر محلے کا آوارہ لونڈا شوکی کے پاس پہنچ گیا شوکی اسے دیکھ کر حیران رہ گیا پری اس سے بولا کہ مجھے ناہید کی لینی ہے شوکی مزید حیران رہ گیا مگر اس نے حامی بھر لی رات کو وه سگریٹ پی رہا تھا اس نے دیکھا کہ ناہید پانی والے پائپ سے نہا رہی تھی اور اس کے کپڑے اترے ہوۓ تھے صرف برا اور پینٹی پہنی ہوئی تھی یہ دیکھ کر اسکے جذبات گرم ہو گۓ تھے