بہن کی پھدی
میرا نام عامر ہے یہ واقعہ اسوقت کا ہے جب میری عمر 25 سال تھی اور میں ماسٹرز کر رہا تھا، میرے گھر میں میرے والد اور والدہ رہتے تھے ایک بڑی بہن تھی جسکی شادی ہوچکی تھی۔ اور وہ امریکہ سیٹل ہوچکی تھی- بہن کی پھدی ۔میری امی نے ایک ماسی رکھی جو اچھی خاصی عمر کی تھی مگر وہ اپنے ساتھ ایک اپنی نواسی کو لاتی تھی جسکی عمر تو پندرہ سال تھی مگر اسکا جسم کسی اٹھارہ سال کی سیکی لڑکی کی طرح تھا ۔ اس ماسی کی بیٹی فوت ہوچکی تھی جسکے بعد اس نواسی کی پرورش کی ذمہ داری اس پر آپڑی تھی۔ خیر کچھ ہی مہینوں میں وہ ماسی اور اسکی نواسی ہمارے گھر میں ایڈجسٹ ہوگئے، اور ہم نے ان دونوں پر اور ان دونوں نے ہم پر بھروسہ کرنا شروع کردیا۔ میں ویسے تو خاصہ شریف لڑکا تھا مگر سیکس کا ایسا بھوکا کہ جو بھی مل جائے چھوڑتا نہیں تھا۔ میرے گھر اور دوستوں میں کسی کو میری ان حرکتوں کا علم نہ تھا۔میرے والد ایک بزنس مین تھے اور انکا بزنس پورے پاکستان میں پھیلا ہوا تھا جسکی وجہ سے وہ اکثر کسی نہ کسی شہر میں جاتے رہتے تھے۔ میری امی کا گھر بھی دوسرے شہر میں تھا۔
ایک بار ایسا ہوا کہ ابا کو اپنے بزنس کے لیے دوسرے شہر جانا تھا اسی شہر میں امی کا میکہ بھی تھا ابا امی کو بھی ساتھ لے گئے تاکہ وہ اپنے والدین اور بھائیوں سے ملاقات کر لیں۔ امی ابو کا یہ دورہ تقریباً ایک ہفتہ کا تھا مجھ سے بھی پوچھا گیا مگر اگلے دن میرا یونیورسٹی میں ٹیسٹ تھا تو میں نے کہا آپ لوگ جائیں میں آپ لوگوں کے پیچھے آجاتا ہوں۔میری بات سن کر امی اور ابا راضی ہوگئے۔امی ابا تو اسی دن روانہ ہوگئے اور میں گھر میں اکیلا رہ گیا۔ ابھی صبح کا وقت تھا میں ناشتہ کر کے اپنے ٹیسٹ کی تیاری ہی کر رہا تھا کہ ماسی اور اسکی نواسی کام کرنے آگئے۔ میں نے ماسی سے کہا امی اور ابا گئے ہیں دوسرے شہر تم کو پتہ ہے جو جو کام کرنا ہے وہ سب کرلو کوئی بتائے گا نہیں تمہیں اس نے کہا آپ بے فکر رہو عامر بیٹا میں سب کر لونگی۔ یہ کہہ کر وہ دونوں سب سے پہلے کچن میں برتن دھونے میں مصروف ہوگئیں۔ذرا دیر بعد ماسی کی نواسی جسکا نام زرینہ تھا وہ کام چھوڑ کر بیٹھ گئی، میں تھوڑی دیر دیکھتا رہا پھر ماسی سے پوچھا “زرینہ کو کیا ہوا ماسی؟
“اسکو بخار ہے صبح سے۔” ماسی نے جواب دیا۔
“تو تم اسکو کام پر نہ لاتی نا یہ اور بیمار ہوجائے گی” میں نے ہمدردی سے جواب دیا۔ جسکو سن کر زرینہ نے تشکر آمیز نظروں سے میری جانب دیکھا۔
“میں اکیلے کیسے اتنا سارا کام کرتی، ابھی اور بھی تو گھروں میں جا کر کام کرنا ہے” ماسی نے جواب دیا۔
“تم نے اسکو دوا دلائی؟” میں نے ماسی سے سوال کیا
“نہیں ابھی گھر جا کر دے دونگی دوا” ماسی نے جواب دیا۔
” گھر تو تم شام تک جاو گی نا؟” میں نے ماسی سے پھر سوال پوچھا۔
“جی شام تک ہی جانا ہوگا” ماسی نے جواب دیا
“ایسا کرو تم اپنا کام کرو میں زرینہ کو دوا دلا کر لاتا ہوں۔” میں نے ماسی سے کہا
“رہنے دیں عامر صاحب آپ تکلیف نہ کریں۔” ماسی نے منع کرنے کے انداز میں کہا
“تکلیف کیسی تم لوگ اتنی خدمت کرتی ہو ہماری سارے گھر کا کام کرتی ہو یہ تو تمہارا حق بنتا ہے، بس تم اپنا کام کرو میں ابھی اسکو دوا دلا کر لاتا ہوں۔” یہ کہہ کر میں نے زرینہ کو کہا” چلو ایسا نہ ہو کلینک بند ہو جائے۔”
زرینہ نے ماسی کی جانب دیکھا ماسی نے اسے ہاں میں سر ہلایا اور زرینہ میرے ساتھ چلی گئی کار میں بیٹھ کر میں نے زرینہ کی گردن پر اپنا ہاتھ لگایا اور کہا ” تم کو تو کافی تیز بخار ہے تم کو آرام کرنا چاہئے تھا۔” زرینہ نے کوئی جواب نہ دیا۔اور خاموشی سے سر جھکا لیاخیر ذرا دیر بعد ہم دوا لے کر واپس آچکے تھے۔ میں نے ماسی سے کہا ” ڈاکٹر نے اسکو مکمل آرام کرنے کو بولا ہے تم اسکو گھر چھوڑ کر پھر جانا اپنے دوسرے کام پر”
“صاحب گھر کیسے چھوڑ سکتی ہوں وہ تو کافی دور ہےاسکو ہمت کر کے جانا ہوگا میرے ساتھ ” ماسی نے جواب دیا۔
“ڈاکٹر نے کہا ہے اگر آرام نہ کیا تو دوا اثر نہیں کرے گی طبیعت اور خراب ہوگی۔ بہتر یہ ہی ہے کہ اسے آرام کرنے دو۔” میں نے جواب دیا
ماسی سوچ میں پڑ گئی پھر بولی “صاحب میں اسکو گھر تو نہیں چھوڑ سکتی دوسرے کام پر دیر ہو جائے گی۔ اگر آپ کو برا نہ لگے تو میں اسکو شام تک آپکے گھر چھوڑ دوں؟ میں باجی سے بات کر لونگی۔” ماسی نے درخواست کی۔
ایک دم میرے دماغ میں منصوبہ بننے لگا۔ میں نے تھوڑا سوچا پھر کہا” باجی سے بات کرنے کی ضرورت نہیں ویسے بھی وہ ایک ہفتے بعد آئینگی۔ تم اسکو چھوڑ دو مگر شام میں ضرور واپس لے جانا ہوسکتا ہے میں گھر سے باہر جائوں تو یہ اکیلی کیسے رہے گی گھر میں۔” میں نے خوشی کو دباتے ہوئے کہا۔
“صاحب آپ فکر نہ کریں میں شام میں آکر اسکو لے جائوں گی۔” ماسی نے بھی خوش ہو کر کہا۔
ذرا دیر بعد ماسی اپنا کام ختم کر کے چلی گئی۔ میں اور میرے گھر والے زرینہ کو ایک چھوٹی بچی کی طرح ہی ٹریٹ کرتے تھے وہ ذہنی طور پر اتنی بالغ تھی بھی نہیں۔خیر ماسی کے جانے کے بعد میں ذہن میں منصوبہ بنانے لگا کہ کس طرح جلدی اپنی خواہش پوری کروں مگر مجھے ڈر بھی تھا یہ شور مچا دے گی۔ یا بعد میں کسی کو بتا دے گی۔
“تم نے صبح سے کچھ کھایا ہے؟” میں نے زرینہ سے سوال کیا۔
“جی تھوڑا سا کھایا تھا۔” زرینہ نے جواب دیا۔
“تم یہاں نہ بیٹھو یا تو صوفہ پر لیٹ جائو یا پھر اندر جا کر بیڈ پر لیٹو ایسے بیٹھی رہوگی تو آرام نہیں ملے گا۔” میں نے زرینہ کو کہا۔
” جی اچھا” یہ کہتے ہوئے وہ اٹھی اور اٹھنے میں لڑکھڑانے لگی تو میں نے بھاگ کر اسکو پکڑا اور سہارا دیا ، سہارا دیتے وقت میں نے اسکو بازو سے پکڑا اور ساتھ ہی جان کر اسکے ایک ممے سے اپنا ہاتھ نہ صرف چھوا بلکہ رگڑا۔ مجھے ایسا لگا جیسے اس نے کوئی برا نہیں پہنا ہوا تھا اسکے ممے زیادہ نہیں تو 32 سائز کے تو ہونگے۔
“تم تو کافی کمزور لگ رہی ہو، چلو میں تم کو لے جا کر بیڈ پر لٹاتا ہوں۔” یہ کہہ کر میں اسکو پکڑ کر اپنے بیڈ روم میں لے گیا اور اسکو بیڈ پر لٹا دیا۔ پھر کچن میں جا کر اسکے لیے ایک سیب کاٹا اور دودھ گرم کر کے کمرے میں لے گیا۔
“چلو یہ کھائو اور پھر دوا بھی لینی ہے۔ شام تک تم کو ٹھیک ہونا ہے” یہ کہتے ہوئے میں اسکی جانب دیکھ کر مسکرایا۔ جواب میں وہ بھی مسکرائی۔وہ سیب کھانے لگی اور میں نے ٹی وی آن کر لیا ۔ میں ایک کے بعد ایک چینل تبدیل کرتا رہا آخر ایک چینل پر انگلش مووی آرہی تھی اور قسمت سے اسی وقت کسنگ کا سین اسٹارٹ ہوا۔ میں اس طرح بیٹھا ہوا تھا کہ ٹی وی اور میرے بیچ میں زرینہ تھی جو کہ ٹی وی پر نظریں جمائے ہوئے تھی۔ اسکو ہوش نہیں تھا کہ میں اسے دیکھ رہا ہوں۔وہ بغور وہ سین دیکھتی رہی اور مجھے ایسا لگا جیسے اسکا سانس تھوڑا تیز ہوا۔ خیر وہ سین ختم ہوا تو میں نے چینل تبدیل کیا تو ایک نیوز چینل تھا جس پر نیوز آرہی تھی کہ شہر کے حالات خراب ہو گئے ہنگامے شروع ہو گئے۔
میں نے زرینہ سے پوچھا کہ تمہاری نانی کس جگہ گئی ہے اب کام پر زرینہ کو اسکا اندازہ نہیں تھا وہ تو بس اپنی نانی کے ساتھ چلی جاتی تھی۔ خیر میں سوچنے لگا کہ ماسی کیسے آئے گی اور کیسے زرینہ کو لے کر جائے گی۔ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک فون کی بیل بجی میں نے بھاگ کر فون اٹھایا تو دوسری طرف ماسی ہی تھی وہ کافی گھبرائی ہوئی تھی۔ میں نے پوچھا تم کہاں ہو تو اس نے جو ایریا بتایا وہ میرے گھر سے کافی دور تھا اور وہاں کے حالات خراب تھے۔میں نے ماسی سے اسکا پروگرام پوچھا کہ وہ کس طرح آئے گی میرے گھر زرینہ کو لینے تو اس نے جواب دیا عامر بیٹا اس وقت تو گھر سے نکلنا جان کو خطرے میں ڈالنا ہے۔میں نے ماسی سے کہا اگر میرے گھر تک آسکو تو آجائو اور تم دونوں یہیں رکو جب تک حالات ٹھیک نہیں ہوتے ۔نہیں ہوتے ٹھیک تو رات میرے گھر پر ہی رکو۔ ماسی نے میرا بہت شکریہ ادا کیا۔ اور کہا وہ پوری کوشش کرے گی کہ زرینہ کو لینے آجائے۔ میں نے کہا تم زرینہ کی فکر نہ کرو وہ آرام سے ہے اور پھر میں نے اسکی زرینہ سے بھی بات کروا دی۔ وہ خاصی مطمئن ہوگئی۔ زرینہ بھی پہلے سے کچھ بہتر محسوس کر رہی تھی۔ ذرا دیر بعد میں نے زرینہ کو دوا دے دی۔ اور کہا تم اب سو جائو تمہاری نانی آئے گی تو میں تم کو جگا لونگا۔ اور یہ کہہ کر میں روم سے باہر نکل گیا۔ مجھے کل یونیورسٹی جانا بھی مشکل لگ رہا تھا۔ ابھی میں اپنے دماغ میں پلان کر ہی رہا تھا کہ دوست کا فون آیا اور اس نے بتایا کہ کل یونیورسٹی بند ہے شہر کے خراب حالات کی وجہ سے۔ میں دل ہی دل میں بہت خوش ہوا اور دعا کرنے لگا کہ ماسی نہ آسکے تو میں زرینہ کے ساتھ اپنی رات رنگین کر لوں۔میں نے ٹی وی لائونج والا ٹی وی آن کیا تو پتہ لگا شہر کے حالات مزید خراب ہو گئے ہیں اور شہر میں کرفیو لگ گیا ہے۔میں بہت خوش تھا کہ اب تو زرینہ کو یہاں ہی رکنا پڑے گا۔خیر میں تھوڑی دیر ادھر ہی گھومتا رہا گھر میں پھر بھوک لگنے لگی تو میں نے کچن میں جاکر کھانا گرم کیا اور جا کر زرینہ کو دیکھا تو وہ جاگ چکی تھی۔
میں اسکے قریب گیا اور پوچھا کیسی طبیعت ہے اب اور ساتھ ہی اسکی گردن کو ایک بار پھر اپنے ہاتھ سے چھوا اس طرح کے میری انگلیاں اسکی قمیض کے گلے کے اندر تھیں اور اسکے ممے کے اوپری حصے کو چھو رہی تھیں۔ اسکی جلد کافی چکنی تھی زرینہ کا بخار اتر چکا تھا۔میں نے مسکرا کر اسکو دیکھا جواب میں وہ بھی مسکرائی۔ میں نے اس سے کہا چلو میں نے کھانا گرم کر لیا ہے چل کر کھا لو۔اس نے کہا میں پوری پسینے میں بھیگی ہوئی ہوں میں شاور لینا چاہتی ہوں میں نے کہا ہاں جائو اندر باتھ میں گرم پانی سے شاور لینا۔اس نے اثبات میں سر ہلایا اور باتھ میں چلی گئی۔
ذرا دیر بعد اسکی آواز آئی عامر بھائی تولیہ نہیں ہے اندر میں نے جلدی سے تولیہ لیا اور اس سے کہا لے لو تولیہ اور دروازہ سے ذرا دور ایک سائیڈ پر کھڑا ہو گیا۔اس نے ذرا سا دروازہ کھولا جب میں نظر نہ آیا تو مزید کھولا بس میں اسی لمحے کے انتظار میں تھا میں ایک دم اسکے سامنے تولیہ ہاتھ میں لیے آگیا۔وہ پوری ننگی میرے سامنے تھی اسکا پورا بدن بھیگا ہوا سیکسی لگ رہا تھا۔وہ ایک دم ہڑبڑا گئی اور میں نے بھی ہڑبڑانے کی ایکٹنگ کی اور ساتھ ہی جلدی سے تولیہ اسکی جانب بڑھایا اور ایک سائیڈ پر ہوگیا اور پھر روم سے باہر نکل گیا۔ذرا دیر بعد وہ شرماتی ہوئی کھانے کی میز تک آئی۔ اور خاموشی سے چپ چاپ بیٹھ کر کھانا کھانے لگی۔ میں نے پوچھا اب کچھ بہتر لگ رہی ہو تم ۔ وہ کہنے لگی جی اب کافی بہتر ہوں۔ میں نے اسے بتایا کہ شہر کے حالات خراب ہیں اور کرفیو لگ گیا ہے نجانے تمہاری نانی کس طرح آئے گی تم کو لینے جس جگہ پر وہ ہے ابھی وہاں تو بہت ہی حالات خراب ہیں ورنہ میں تم کو خود چھوڑ آتا نانی کے پاس اگر وہ نہ آسکی تو تم کو رات یہیں رکنا ہوگا۔ یہ سن کر وہ تھوڑی پریشان ہو گئی۔
ابھی ہم کھانے سے فارغ ہی ہوئے تھے کہ ماسی کا دوبارہ فون آیا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ وہ کہاں ہے تو اس نے بتایا کہ وہ اسی گھر میں ہے اور اب نکل نہیں سکتی اور نہ وہ گھر والے اسے جانے دے رہے ہیں کیونکہ شہر میں کرفیو لگا ہے۔ میں نے پوچھا تو میں تمہارے پاس لے آئوں زرینہ کو وہ اب کافی بہتر ہے۔ تو اس نے پھر درخواست کی کہ میں اسے کہیں نہ جانے دوں اور رات رکنے کی اجازت دے دوں میں نے کہا مجھے اعتراض نہیں مگر تمہاری نواسی پریشان ہے اسکو تسلی دو یہ کہہ کر میں نے زرینہ کو فون دیا ماسی نے فون پر زرینہ سے نجانے کیا کہا ۔ کہ وہ کافی مطمئن ہوگئی۔ میں دل ہی دل میں بہت خوش تھا اور یہ موقع گنوانا نہیں چاہتا تھا۔ خیر زرینہ نے ہمت کر کے سارے برتن دھوئے۔کچن کی صفائی میں زرینہ کی مدد کرتا رہا۔ اور بار بار اسکے جسم کو بہانے بہانے سے چھوتا رہا۔ اور اسکی خوبصورتی کی تعریف کرتا رہا وہ کبھی خوش ہوتی کبھی شرماتی کیونکہ اسکو ٹھیک سے اندازہ نہیں تھا کہ وہ کیا بلا ہے۔
خیر وہ کام سے فارغ ہوئی تو میں نے اسکو کہا اب تم کو رات تو یہیں گذارنی ہے تو اسکو اپنا ہی گھر سمجھو۔ کسی بات میں شرمانے کی ضرورت نہیں ہے کچھ کھانے کا دل کر رہا ہے تو کھائو کوئی منع نہیں کرے گا۔زرینہ کے چہرے سے خوشی ظاہر ہو رہی تھی۔میں نے زرینہ سے کہا تمہاری دوا کا بھی وقت ہو گیا ہے تم دوا کھائو پھر ہم دونوں بیٹھ کر فلم دیکھتے ہیں۔میں نے اسے بتایا کہ کونسی دوا کھانی ہے اس نے دوا کھائی پھر ہم دونوں میرے روم میں آگئے۔میں اس سے ادھر ادھر کی باتیں کرتا رہا اسکو سیکس کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں تھیں۔ پھر میں نے پوچھا کہ فلم دیکھتی ہو تو اس نے جواب دیا کبھی کبھی دیکھتی ہے۔ تو میں نے پوچھا کیا اچھا لگتا ہے فلم میں تو اس نے جواب دیا گانے اور ڈانس۔
بس اب میں نے اپنا لیپ ٹاپ آن کیا اور ایک ویب سائٹ پر جا کر ایک سیکسی مجرا لگا دیا۔ پھر اس سے پوچھا ایسے ڈانس اچھے لگتے ہیں کیا۔ اس نے کہا ایسا تو کبھی نہیں دیکھا۔ میں نے کہا چلوآج دیکھو۔اس مجرے میں وہ ڈانسر اپنے ممے ہلا ہلا کر دکھا رہی تھی اور کافی دفعہ اس نے اپنی شرٹ اوپر کر کے اپنے ممے بھی دیکھا دیے میں بغور زرینہ کے چہرے کا جائزہ لے رہا تھا کہ وہ کیا محسوس کر رہی ہے۔بالآخر وہ وقت آیا جب اسکی سانس تیز ہوئی اور وہ بار بار اپنے بیٹھنے کی پوزیشن تبدیل کرنے لگی۔ تو میں نے پوچھا کیا ہوا اچھا نہیں لگا کیا ڈانس؟اس نے بچوں کی طرح منہ بنا کر کہا نہیں اچھا نہیں لگا۔
میں نے پھر پوچھا کیوں؟ اس نے کہا گندا ہے۔ میں ہنسنے لگا اور کہا کیوں گندا ہے وہ یہ دکھا رہی تھی اس لیے گندا ہے یہ کہتے ہوئے میں نے اسکے مموں کو چھوا اسکو ایک دم جیسے کرنٹ لگا۔ وہ ہراساں ہو کر مجھے دیکھنے لگی۔میں نے کہا پریشان نہ ہو میں تو مذاق کر رہا تھا۔ پھر کہا چلو فلم دیکھتے ہیں میں نے ڈھونڈ کر ایک سوفٹ کور مووی نیٹ پر لگا دی۔
ذرا دیر میں اس پر سیکسی سین اسٹارٹ ہوگئے جو کسنگ سے اسٹارٹ ہوئے اور پھر گھوڑی اسٹائل پر ختم اور ایک کے بعد ایک سین ذرا دیر میں شروع ہو جاتا تھا۔میں اسکا سرخ ہوتا چہرے بغور دیکھ رہا تھا اسکی سانسیں بھی بے ترتیب ہورہی تھیں۔ میں نے چپکے سے منہ اسکے کان کے پاس کیا اور پوچھا کیسی ہے فلم؟ اس نے چونک کر مجھے دیکھا اور اپنے چہرے کے اتنے قریب دیکھ کر بدحواس ہو گئی۔میں نے ہمت کر کے اسکا ہاتھ پکڑا جسکو اس نے چھڑایا نہیں اسکو کیا معلوم تھا کہ میں نے اسکا ہاتھ کیوں پکڑا ہے۔دوسرے ہاتھ سے میں نے اسکا چہرہ پکڑ کر اپنے مزید نزدیک کیا اور ایک کس کی اسکے گال پر۔ اور آہستہ سے اسکے کان میں کہا تم بہت خوبصورت ہو زرینہ۔ میری بات سن کر اسکا چہرہ مزید سرخ ہوگیا مجھے اسکا جسم گرم لگنے لگا۔ مگر یہ گرمی کسی اور بخار کی تھی جو دوا سے اترنے والا نہیں تھا۔مجھے خوشی یہ تھی کہ وہ کسی قسم کی مزاحمت نہیں کر رہی تھی۔
میں نے مزید ہمت کی اور اپنا ایک ہاتھ اسکے ایک ممے پر رکھ دیااور اسکو ہلکا سا دبایا مجھے اسکے جسم میں کپکپاہٹ صاف محسوس ہو رہی تھی۔اسکی سانس اب اتنی تیز تھی جیسے کافی دور سے دوڑ کر آرہی ہو۔اسکا جسم کافی کم سن عمر کی لڑکی کا جسم تھا۔ مگر اسکے ممے اور اسکی گانڈ اتنی زبردست تھی کہ دیکھنے والا چودنے کی خواہش ضرور کرےگا۔ اب میں نے اسکے نازک ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں دبا لیا اور چوسنے لگا میں نے دیکھا کہ زرینہ نے آنکھیں بند کر لی تھیں اور وہ مزہ لے رہی تھی۔میری اور ہمت بڑھی اور میں نے اسکو اپنی بانہوں میں جکڑ لیا اور اپنے سینے سے چمٹالیا۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس نے بھی مجھے کسی فلمی ہیروئین کی طرح جکڑ لیا۔بس اب کیا تھا اب تو میں نے بے تحاشہ اسکو کس کرنا شروع کردیا۔
وہ میری کسنگ سے ہی مدہوش ہونے لگی تھی۔ ابھی تو بڑی منزلیں باقی تھیں ابھی تو میری اس رانی کو انکا بھی مزہ چکھنا تھا۔اسکے ممے میرے سینے سے بری طرح مسلے جا رہے تھے مگر اسکو پرواہ نہیں تھی۔ وہ بھرپور مزہ لے رہی تھی۔اب میں نے کسنگ بند کی اور اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنے لنڈ پر رکھا ۔ وہ ادھ کھلی آنکھوں سے مدہوش ہو کر کبھی مجھے دیکھتی اور کبھی اپنے ہاتھ کو جو میرے لنڈ پر تھا میرا لنڈ میری جینز سے باہر آنے کو مچل رہا تھا۔میں نے اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا کبھی دیکھا ہے کسی کو ننگا ؟ اس نے جواب نفی میں صرف سر ہلا کر دیا۔ میں نے پوچھا یہ جس چیز پر تمہارا ہاتھ ہے اسکو دیکھو گی ۔ اس نے کوئی جواب نہیں دیا اور نظر میری لنڈ پر گاڑ دی۔ میں نے اس حرکت کو مثبت جواب سمجھا اور گھٹنوں کے بل کھڑے ہو کر اپنی جینز کی زپ کو کھولا اور اس سے کہا اپنا ہاتھ ڈالو اندر۔ اس نے ذرا بھی جنبش نہیں کی میں نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنی جینز کی کھلی ہوئی زپ پر رکھا تو اس نے خود کوشش کی ہاتھ کو اندر ڈالنے کی وہ تھوڑا جھجھک رہی تھی ورنہ میرا یقین یہ تھا کہ وہ بھی سب کچھ چاہ رہی ہے مگر اسکو کیا اندازہ کہ سب کچھ کیا ہے۔خیر کسی طرح اس کا ہاتھ میری زپ کے اندر چلا گیا اب میرے لنڈ اوراسکے نازک ہاتھ کے درمیان صرف انڈر وئیر تھی۔
میں نے پوچھا کیسا لگا تم کو یہ۔ تو اس نے شرما کر منہ دوسری طرف کر لیا۔بس اسی دم میں نے اپنی جینز کا بٹن کھول دیا اور اسکا ہاتھ باہر نکالا۔ اور فرش پر کھڑے ہو کر اپنی جینز اتار دی اب میں صرف انڈروئیر اور شرٹ میں تھا۔لنڈ بری طرح سخت ہو رہا تھاانڈروئیر میں جسکی وجہ سے مجھے تکلیف ہو رہی تھی۔اس نے جیسے ہی مجھے ننگا دیکھا دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ چھپا لیا۔مجھے اسکی اس ادا پر بہت پیار آیا۔میں اسکے قریب آیا اور اسکا ایک ہاتھ پکڑ کر اپنے لنڈ پر پھر سے رکھا اور کہا انکھیں کھولو۔ اس نے آنکھیں کھولی اور میری چھپے ہوئے لنڈ کو دیکھا۔ میں نے کہا چلو میری انڈر وئیر اتارو اس کے منہ سے بے اختیار نہیں نکلا۔ میں نے کہا یار کیا شرما رہی ہو تم ابھی میں نے بھی تو تم کو ننگا دیکھا تھا جب تم باتھ روم میں تھی ۔ وہ سین یاد آتے ہی اسکا چہرہ پھر سے سرخ ہونے لگا۔خیر میں نے اسکے دونوں ہاتھ پکڑ کر اپنی انڈر وئیر ان میں دی اور اس سے کہا چلو زرینہ اتارو اسے اس نے کپکپاتے ہاتھوں سے میری انڈروئیر کو نیچے کیا جیسے ہی انڈروئیر نیچے ہوئی میرا لمبا موٹا پھنپھناتا ہوا لنڈ ایک جھٹکے سے باہر نکلا اور اوپر نیچے ہو کر زرینہ کو سلامی دینے لگا۔ مگر زرینہ ایک دم اچھل کر ایسے پیچھے ہوئی جیسے سانپ دیکھ لیا ہو۔باقی انڈروئیر میں نے خود اتاری پھر ساتھ ہی شرٹ بھی اتار کر میں کپڑوں سے آزاد ہو گیا۔ اب زرینہ کے اور قریب ہوا تو وہ پیچھے ہٹنے لگی۔ میں نے کہا اسکو ہاتھ میں لو۔ تو وہ نہ مانی تو میں نے زبردستی اسکے ہاتھ پکڑ کر اپنے لنڈ پر رکھ دیئے پہلے تو وہ ڈری مگر پھر کچھ سیکنڈ میں اس نے میرا لنڈ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔اسکے نازک ہاتھ کا لمس ملتے ہی میرا لنڈ مزید لمبا اور سخت ہونے لگا۔میرا لمبالنڈ اسکے ہاتھ میں پورا بھی نہیں آرہا تھا۔میں نے اس سے کہا چلو اس پر پیار کرو۔ وہ نہ مانی مگر بار بار کہتا رہا آخر اس نے ہمت کی اور میرے لنڈ کے ٹوپے پر ایک ہلکی سی کس کی۔ پھر میں نے اس سے کہا اسکو منہ میں لو اور لولی پوپ کی طرح چوسو۔ اس نے صاف منع کردیا تو میں نے کہا ابھی جو فلم میں سب دیکھا تھا نا ویسا کرنا ہے تم کو۔ خیر بڑی دیر تک منایا تو اس نے میرا لنڈ اپنے منہ میں لیا۔ اتنی دیر بحث کرنے میں لنڈ تھوڑا ڈھیلا ہوگیا تھا مگر جیسے ہی زرینہ کہ منہ کا گیلا پن اور گرمی اسکو ملی اس میں واپس سے کرنٹ دوڑ گیا اور وہ زرینہ کے منہ میں رہتے رہتے ہیں پورا تن کر کھڑ اہوگیا۔اب میرا لنڈ پورا تیار تھا اب زرینہ کی چوت کو تیار کرنا تھا جو ذرا مشکل کام تھا، میں نے زرینہ کا تعارف اپنے لنڈ سے سرسری طور پر تو کروا دیا تھا مگر اب اصل تعارف کی باری تھی۔میں نے زرینہ سے کہا اپنی شرٹ اتارو مجھے تمہارے سینے پر پپی کرنی ہے وہ بہت شرمائی اور منع کرتی رہی مگر میں نے اسکو بہت سمجھایا کہ کوئی بھی نہیں دیکھ رہا میرے سوا اور نہ کسی کو پتہ لگے گا۔ تو آخر کار وہ مان گئی اور جیسے ہی اسکی شرٹ اتری اسکے 32 سائز کے ممے اچھل کر سامنے آئے۔ ایک دم ٹینس بال کی طرح گول اسکے نپلز گلابی اور نوکیلے تھے۔سو فیصد سیل آئٹم تھی وہ میری رانی۔اسکا بدن اتنا گورا تو نہیں مگر اسکی جلد میں بہت کشش تھی۔ایک دم نمکین۔ میں نے جلدی سے پہلا حملہ کیا اور اسکا ایک مما اپنے منہ میں لے کر بے تحاشہ چوسنا شروع کیا اسکے منہ سے آہیں نکلنے لگیں۔ جیسے ہی میں اسکے نپلز کو چوستا اسکا پورا بدن اکڑ جاتا تھا۔ میں کافی دیر اسکو اسی طرح مست کرتا رہا۔وہ بے حال ہو رہی تھی۔پھر اسکو ہوش نہ رہا اور میں نے خاموشی سے اپنا ایک ہاتھ اسکی شلوار میں داخل کردیا اسکی شلوار میں الاسٹک تھی۔میں سیدھا اپنا ہاتھ اسکی شلوار میں گھسیڑتا ہوا اسکی چوت تک لے گیا اور اسپر اپنی ایک انگلی رکھ کر ہلکا سا دبایا تو ایک دم زرینہ کو جیسے ہوش آگیا۔مگر مجھ پر بھی یہ انکشاف ہوا کہ اسکی چوت پوری طرح گیلی تھی۔اسنے خود کو کنٹرول کرنے کے لئے اور کچھ سمجھ نہ آیا تو میرا ہاتھ اپنی دونوں ٹانگوں کے بیچ دبا لیا۔مگر اس سے کیا ہوتا میری انگلی تو اسکی چوت پر دستک دے رہی تھی۔ میں نے صرف انگلی سے ہی اسکی چوت کو سہلانا شروع کردیا۔ وہ کسمساتی رہی مگر میں باز نہ آیا ، آج میں اسے جنگلیوں کی طرح چودنا چاہتا تھا سو میں اس پر ذرا بھی رحم کرنے کو تیار نہ تھا۔کافی دن کے بعد تو ایک کنواری لڑکی ہاتھ آئی تھی ورنہ تو آنٹیاں ہی کثرت سے ملا کرتی تھیں۔ خیر ذرا دیر بعد اس نے یہ معمولی سی مزاحمت بھی چھوڑ دی اور اپنی ٹانگیں کھول دیں اور مموں کے ساتھ ساتھ وہ اپنی چوت کو سہلائے جانے کا بھی مزہ لے رہی تھی۔بخار کی وجہ سے اسکو تھوڑی کمزوری تو پہلے ہی تھی اسی لیے وہ جلدی مدہوش بھی ہوئی اور نشے سے چور۔اب میں نے ذرا دیر مزید اسکی چوت کو سہلایا اور پھر اس سے پوچھے بنا اسکی شلوار بھی اتار دی۔ اب ہم دونوں کپڑوں سے بالکل آزاد تھے۔میں نے چاٹ چاٹ کر اسکا جسم گیلا کردیا تھا اسکا بدن بہت چکنا تھا بس ملائی تھی وہ پوری۔میرا لنڈ جو ڈھیلا ہوچکا تھا وہ واپس سے پورا تن چکا تھا، اور زرینہ کی چوت میں انٹری مانگ رہا تھا۔میں زرینہ کو چومتے چومتے اس پوزیشن میں آگیا کہ میں زرینہ کے اوپر پورا لیٹ چکا تھا اور میرا لنڈ اسکی دونوں ٹانگوں کے بیچ تھا زرینہ کو نہیں معلوم تھا کہ میرا لنڈ اسکی چوت میں جائے گا اور وہ اس طرح حاملہ ہو سکتی ہے ۔
اگر یہ سب اسے علم ہوتا تو وہ کب کی میرے گھر سے بھاگ چکی ہوتی۔وہ تو بس اپنے جسم کو سہلائے جانے سے جو مزہ مل رہا تھا اسکو انجوائے کر رہی تھی۔زرینہ کی چوت سے کافی پانی نکل چکا تھا اور وہ پوری گیلی تھی میں نے اپنا لنڈ اسکی چوت پر ذرا دیر رگڑا اور اسکا ٹوپا پوری طرح زرینہ کی چوت کے پانی سے گیلا کیا۔پھر زرینہ سے کہا تھوڑی سی ٹانگیں کھولو۔اس نے فوراً میری بات مان لی بس اب مجھے جلدی اپنا لنڈ اسکی چوت میں ڈالنا تھا اگر اسکو ذرا بھی سنبھلنے کا موقع ملتا تو تکلیف کی وجہ سے وہ مجھے کبھی اپنی چوت میں داخل نہ ہونے دیتی۔میں نے بھی وقت ضائع نہ کیا اور لنڈ کو سیدھا کر کے اسکی چوت کے منہ پر سیٹ کیا اور ایک ہی جھٹکے میں پورا ٹوپا اسکی چوت میں گھسیڑ دیا۔ زرینہ کے منہ سے ایک چیخ نکلی اور ساتھ ہی آنکھوں سے آنسو وہ میری منتیں کرنے لگی کے میں اپنا لنڈ واپس نکال لوں میں اسکو تسلیاں دینے لگا اور اسی بحث میں ذرا دیر گذری تو زرینہ کا درد ختم ہو گیا میں نے اس سے پوچھا اب بھی درد ہے کیا اس نے کہا نہیں مگر اسکو باہر نکالو۔میں نے اسے پھر بہلایا بس ذرا دیر اندر رہنے دو پھر نکال لونگا۔ یہ کہہ کر میں اسکے ہونٹ چوسنے لگا۔ وہ بھی چوت کو بھول کر ہونٹ چوسنے میں ساتھ دینے لگی۔بس یہ موقع کافی تھا ویسے ہی لیٹے لیٹے میں نے ایک زور کا جھٹکا مارا اور آدھے سے زیادہ لنڈ اسکی چوت میں گھسیڑ دیا۔ایک بار پھر وہ درد سے بلبلانے لگی مگر اس بار اسکا منہ میں نے اپنے منہ سے بند کیا ہوا تھا۔وہ میری کمر پر اپنے ناخنوں سے بری طرح نوچنے لگی۔مگر میں اب کہاں اسکو چھوڑنے والا تھا۔کونسا ایسا لنڈ ہوگا جسکے سامنے گیلی چوت ہو اور وہ اس میں نہ جانا چاہے خاص طور پر وہ چوت جس میں کوئی لنڈ کبھی گیا ہی نہ ہو۔
خیر تھوڑی دیر میری کمر نوچنے کے بعد وہ ٹھنڈی ہونے لگی اور نڈھال بھی۔اب اس نے خود کو میرے حوالے کردیا تھا۔میں نے اسکے ہونٹوں سے ہٹ کر اسکا چہرہ دیکھا وہ آنسو سے بھیگا ہوا تھا مجھے ایک لمحے کو اس پر ترس تو آیا مگر اگلے لمحے اسکی نرم گرم گیلی چوت کا لمس اپنے لنڈ پر محسوس کرتے ہی میں نے اس کی کوئی پرواہ نہ کی۔اب میں سیدھا ہو کر اسکی دونوں ٹانگوں کے بیچ بیٹھا تو دیکھا میرا لنڈ اسکی چوت سے نکلنے والے خون سے سرخ ہو رہا تھا میں نے سوچا اگر ابھی صفائی کا سوچا تو اس رانی کا دماغ بدل جائے گا۔ سو بس تھوڑا سا لنڈ باہر نکالا اور پھر آہستہ سے اندر کیا ایک بار پھر اسکی منہ سے سسکاری نکلی۔ مگر شاید اسکو تکلیف نہ تھی۔ تو اب فیصلہ کیا فوراً ہی پورا لنڈ اندر ڈالو اور بس شروع کرو چدائی۔ بس دو چار بار اسی طرح میں نے لنڈ اندر باہر کیا اور ایک بار بھرپور جھٹکا مارا تو میرا پورا لنڈ اسکی چوت میں گھس گیا۔ وہ ایک بار پھر سے پھڑپھڑائی۔ مگر جلد ہی خود ہی سنبھل گئی۔
اب میں نے لنڈ کو اندر ہی رکھ کر ذرا اور دبایا تو اسکے چہرے پر تکلیف کے آثار نہ دیکھ کر میں سمجھ گیا چوت تیار ہے زبردست چدائی کے لئے۔بس اب میں نے لنڈ کو پہلے آہستہ آہستہ اندر باہر کیا اور ذرا دیر بعد اپنی رفتار بڑھا دی۔اب میرے ہر جھٹکے پر اسکے منہ سے آہ تو نکلتی تھی مگر چہرے پر تکلیف کے آثار نہیں بلکہ ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔ ذرا دیر بعد وہ مزے کی بلندیوں کو چھونے لگی۔ اور اپنا سر کبھی دائیں کبھی بائیں کرتی کبھی ہاتھ سے اپنے ممے دباتی کبھی ہونٹ دانتوں سے دباتی۔اچانک اسکے منہ سے تیز تیز آہیں نکلیں اور ایک دم اسکا جسم اکڑا اور جھٹکے لے کر کپکپانے لگا۔میں سمجھ گیا اسکی چوت اپنا پانی اگل رہی ہے۔ مجھے ابھی فارغ ہونے میں وقت تھا۔جیسے ہی اسکی چوت نے پانی اگلا میں نے جلدی سے لنڈ باہر نکالا وہ نڈھال ہو کر چاروں شانے چت بیڈ پر پڑی دعوت دے رہی تھی کے آئو اور چود ڈالو۔ میں جلدی سے اپنی الماری کی طرف بڑھااور وہاں سے ایک کونڈم نکال کر اپنے لنڈ پر چڑھایا اور دوبارہ سے پورا لنڈ اسکی چوت میں ڈال دیا۔ ایک بار پھر وہ ہی جھٹکوں کے سلسلے۔ ذرا دیر میں وہ دوبارہ چارج ہوئی اور پھر اسکی منہ سے آہیں نکلنے لگیں مگر اس بار وہ اپنی چوت کو اچھال کر میرا پورا پورا لنڈ وصول کر رہی تھی۔تھوڑی دیر اسی طرح چدائی کے بعد میرے لنڈ نے بھی لاوا اگلنا شروع کیا اور اسی وقت اسکی چوت نے بھی دوبارہ پانی چھوڑا۔ میں نے اپنی منی کا آخری قطرہ بھی کونڈم میں اسکی چوت کے اندر ہی نکال دیا۔
تھوڑی دیر اسی طرح نڈھال پڑے رہے ہم دونوں پھر پہلے میں اسکو لے کر باتھ گیا وہاں اسکو اچھی طرح دھویا اس سے اب ٹھیک سے کھڑا بھی نہیں ہوا جا رہا تھا۔پھر میں نے باتھ لیا اور کپڑے تبدیل کئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی رات ایک بار پھر میں نے اور زرینہ نے بھرپور چدائی کی مگر اس بار زرینہ ایک پوری پوری رنڈی کی طرح مجھے ملی
Ye kya likha hai mujh Hindi nai atiहिंदी सेक्शन में उर्दू
हिंदी font लिखो......
v.niceبہن کی پھدی
میرا نام عامر ہے یہ واقعہ اسوقت کا ہے جب میری عمر 25 سال تھی اور میں ماسٹرز کر رہا تھا، میرے گھر میں میرے والد اور والدہ رہتے تھے ایک بڑی بہن تھی جسکی شادی ہوچکی تھی۔ اور وہ امریکہ سیٹل ہوچکی تھی- بہن کی پھدی ۔میری امی نے ایک ماسی رکھی جو اچھی خاصی عمر کی تھی مگر وہ اپنے ساتھ ایک اپنی نواسی کو لاتی تھی جسکی عمر تو پندرہ سال تھی مگر اسکا جسم کسی اٹھارہ سال کی سیکی لڑکی کی طرح تھا ۔ اس ماسی کی بیٹی فوت ہوچکی تھی جسکے بعد اس نواسی کی پرورش کی ذمہ داری اس پر آپڑی تھی۔ خیر کچھ ہی مہینوں میں وہ ماسی اور اسکی نواسی ہمارے گھر میں ایڈجسٹ ہوگئے، اور ہم نے ان دونوں پر اور ان دونوں نے ہم پر بھروسہ کرنا شروع کردیا۔ میں ویسے تو خاصہ شریف لڑکا تھا مگر سیکس کا ایسا بھوکا کہ جو بھی مل جائے چھوڑتا نہیں تھا۔ میرے گھر اور دوستوں میں کسی کو میری ان حرکتوں کا علم نہ تھا۔میرے والد ایک بزنس مین تھے اور انکا بزنس پورے پاکستان میں پھیلا ہوا تھا جسکی وجہ سے وہ اکثر کسی نہ کسی شہر میں جاتے رہتے تھے۔ میری امی کا گھر بھی دوسرے شہر میں تھا۔
ایک بار ایسا ہوا کہ ابا کو اپنے بزنس کے لیے دوسرے شہر جانا تھا اسی شہر میں امی کا میکہ بھی تھا ابا امی کو بھی ساتھ لے گئے تاکہ وہ اپنے والدین اور بھائیوں سے ملاقات کر لیں۔ امی ابو کا یہ دورہ تقریباً ایک ہفتہ کا تھا مجھ سے بھی پوچھا گیا مگر اگلے دن میرا یونیورسٹی میں ٹیسٹ تھا تو میں نے کہا آپ لوگ جائیں میں آپ لوگوں کے پیچھے آجاتا ہوں۔میری بات سن کر امی اور ابا راضی ہوگئے۔امی ابا تو اسی دن روانہ ہوگئے اور میں گھر میں اکیلا رہ گیا۔ ابھی صبح کا وقت تھا میں ناشتہ کر کے اپنے ٹیسٹ کی تیاری ہی کر رہا تھا کہ ماسی اور اسکی نواسی کام کرنے آگئے۔ میں نے ماسی سے کہا امی اور ابا گئے ہیں دوسرے شہر تم کو پتہ ہے جو جو کام کرنا ہے وہ سب کرلو کوئی بتائے گا نہیں تمہیں اس نے کہا آپ بے فکر رہو عامر بیٹا میں سب کر لونگی۔ یہ کہہ کر وہ دونوں سب سے پہلے کچن میں برتن دھونے میں مصروف ہوگئیں۔ذرا دیر بعد ماسی کی نواسی جسکا نام زرینہ تھا وہ کام چھوڑ کر بیٹھ گئی، میں تھوڑی دیر دیکھتا رہا پھر ماسی سے پوچھا “زرینہ کو کیا ہوا ماسی؟
“اسکو بخار ہے صبح سے۔” ماسی نے جواب دیا۔
“تو تم اسکو کام پر نہ لاتی نا یہ اور بیمار ہوجائے گی” میں نے ہمدردی سے جواب دیا۔ جسکو سن کر زرینہ نے تشکر آمیز نظروں سے میری جانب دیکھا۔
“میں اکیلے کیسے اتنا سارا کام کرتی، ابھی اور بھی تو گھروں میں جا کر کام کرنا ہے” ماسی نے جواب دیا۔
“تم نے اسکو دوا دلائی؟” میں نے ماسی سے سوال کیا
“نہیں ابھی گھر جا کر دے دونگی دوا” ماسی نے جواب دیا۔
” گھر تو تم شام تک جاو گی نا؟” میں نے ماسی سے پھر سوال پوچھا۔
“جی شام تک ہی جانا ہوگا” ماسی نے جواب دیا
“ایسا کرو تم اپنا کام کرو میں زرینہ کو دوا دلا کر لاتا ہوں۔” میں نے ماسی سے کہا
“رہنے دیں عامر صاحب آپ تکلیف نہ کریں۔” ماسی نے منع کرنے کے انداز میں کہا
“تکلیف کیسی تم لوگ اتنی خدمت کرتی ہو ہماری سارے گھر کا کام کرتی ہو یہ تو تمہارا حق بنتا ہے، بس تم اپنا کام کرو میں ابھی اسکو دوا دلا کر لاتا ہوں۔” یہ کہہ کر میں نے زرینہ کو کہا” چلو ایسا نہ ہو کلینک بند ہو جائے۔”
زرینہ نے ماسی کی جانب دیکھا ماسی نے اسے ہاں میں سر ہلایا اور زرینہ میرے ساتھ چلی گئی کار میں بیٹھ کر میں نے زرینہ کی گردن پر اپنا ہاتھ لگایا اور کہا ” تم کو تو کافی تیز بخار ہے تم کو آرام کرنا چاہئے تھا۔” زرینہ نے کوئی جواب نہ دیا۔اور خاموشی سے سر جھکا لیاخیر ذرا دیر بعد ہم دوا لے کر واپس آچکے تھے۔ میں نے ماسی سے کہا ” ڈاکٹر نے اسکو مکمل آرام کرنے کو بولا ہے تم اسکو گھر چھوڑ کر پھر جانا اپنے دوسرے کام پر”
“صاحب گھر کیسے چھوڑ سکتی ہوں وہ تو کافی دور ہےاسکو ہمت کر کے جانا ہوگا میرے ساتھ ” ماسی نے جواب دیا۔
“ڈاکٹر نے کہا ہے اگر آرام نہ کیا تو دوا اثر نہیں کرے گی طبیعت اور خراب ہوگی۔ بہتر یہ ہی ہے کہ اسے آرام کرنے دو۔” میں نے جواب دیا
ماسی سوچ میں پڑ گئی پھر بولی “صاحب میں اسکو گھر تو نہیں چھوڑ سکتی دوسرے کام پر دیر ہو جائے گی۔ اگر آپ کو برا نہ لگے تو میں اسکو شام تک آپکے گھر چھوڑ دوں؟ میں باجی سے بات کر لونگی۔” ماسی نے درخواست کی۔
ایک دم میرے دماغ میں منصوبہ بننے لگا۔ میں نے تھوڑا سوچا پھر کہا” باجی سے بات کرنے کی ضرورت نہیں ویسے بھی وہ ایک ہفتے بعد آئینگی۔ تم اسکو چھوڑ دو مگر شام میں ضرور واپس لے جانا ہوسکتا ہے میں گھر سے باہر جائوں تو یہ اکیلی کیسے رہے گی گھر میں۔” میں نے خوشی کو دباتے ہوئے کہا۔
“صاحب آپ فکر نہ کریں میں شام میں آکر اسکو لے جائوں گی۔” ماسی نے بھی خوش ہو کر کہا۔
ذرا دیر بعد ماسی اپنا کام ختم کر کے چلی گئی۔ میں اور میرے گھر والے زرینہ کو ایک چھوٹی بچی کی طرح ہی ٹریٹ کرتے تھے وہ ذہنی طور پر اتنی بالغ تھی بھی نہیں۔خیر ماسی کے جانے کے بعد میں ذہن میں منصوبہ بنانے لگا کہ کس طرح جلدی اپنی خواہش پوری کروں مگر مجھے ڈر بھی تھا یہ شور مچا دے گی۔ یا بعد میں کسی کو بتا دے گی۔
“تم نے صبح سے کچھ کھایا ہے؟” میں نے زرینہ سے سوال کیا۔
“جی تھوڑا سا کھایا تھا۔” زرینہ نے جواب دیا۔
“تم یہاں نہ بیٹھو یا تو صوفہ پر لیٹ جائو یا پھر اندر جا کر بیڈ پر لیٹو ایسے بیٹھی رہوگی تو آرام نہیں ملے گا۔” میں نے زرینہ کو کہا۔
” جی اچھا” یہ کہتے ہوئے وہ اٹھی اور اٹھنے میں لڑکھڑانے لگی تو میں نے بھاگ کر اسکو پکڑا اور سہارا دیا ، سہارا دیتے وقت میں نے اسکو بازو سے پکڑا اور ساتھ ہی جان کر اسکے ایک ممے سے اپنا ہاتھ نہ صرف چھوا بلکہ رگڑا۔ مجھے ایسا لگا جیسے اس نے کوئی برا نہیں پہنا ہوا تھا اسکے ممے زیادہ نہیں تو 32 سائز کے تو ہونگے۔
“تم تو کافی کمزور لگ رہی ہو، چلو میں تم کو لے جا کر بیڈ پر لٹاتا ہوں۔” یہ کہہ کر میں اسکو پکڑ کر اپنے بیڈ روم میں لے گیا اور اسکو بیڈ پر لٹا دیا۔ پھر کچن میں جا کر اسکے لیے ایک سیب کاٹا اور دودھ گرم کر کے کمرے میں لے گیا۔
“چلو یہ کھائو اور پھر دوا بھی لینی ہے۔ شام تک تم کو ٹھیک ہونا ہے” یہ کہتے ہوئے میں اسکی جانب دیکھ کر مسکرایا۔ جواب میں وہ بھی مسکرائی۔وہ سیب کھانے لگی اور میں نے ٹی وی آن کر لیا ۔ میں ایک کے بعد ایک چینل تبدیل کرتا رہا آخر ایک چینل پر انگلش مووی آرہی تھی اور قسمت سے اسی وقت کسنگ کا سین اسٹارٹ ہوا۔ میں اس طرح بیٹھا ہوا تھا کہ ٹی وی اور میرے بیچ میں زرینہ تھی جو کہ ٹی وی پر نظریں جمائے ہوئے تھی۔ اسکو ہوش نہیں تھا کہ میں اسے دیکھ رہا ہوں۔وہ بغور وہ سین دیکھتی رہی اور مجھے ایسا لگا جیسے اسکا سانس تھوڑا تیز ہوا۔ خیر وہ سین ختم ہوا تو میں نے چینل تبدیل کیا تو ایک نیوز چینل تھا جس پر نیوز آرہی تھی کہ شہر کے حالات خراب ہو گئے ہنگامے شروع ہو گئے۔
میں نے زرینہ سے پوچھا کہ تمہاری نانی کس جگہ گئی ہے اب کام پر زرینہ کو اسکا اندازہ نہیں تھا وہ تو بس اپنی نانی کے ساتھ چلی جاتی تھی۔ خیر میں سوچنے لگا کہ ماسی کیسے آئے گی اور کیسے زرینہ کو لے کر جائے گی۔ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک فون کی بیل بجی میں نے بھاگ کر فون اٹھایا تو دوسری طرف ماسی ہی تھی وہ کافی گھبرائی ہوئی تھی۔ میں نے پوچھا تم کہاں ہو تو اس نے جو ایریا بتایا وہ میرے گھر سے کافی دور تھا اور وہاں کے حالات خراب تھے۔میں نے ماسی سے اسکا پروگرام پوچھا کہ وہ کس طرح آئے گی میرے گھر زرینہ کو لینے تو اس نے جواب دیا عامر بیٹا اس وقت تو گھر سے نکلنا جان کو خطرے میں ڈالنا ہے۔میں نے ماسی سے کہا اگر میرے گھر تک آسکو تو آجائو اور تم دونوں یہیں رکو جب تک حالات ٹھیک نہیں ہوتے ۔نہیں ہوتے ٹھیک تو رات میرے گھر پر ہی رکو۔ ماسی نے میرا بہت شکریہ ادا کیا۔ اور کہا وہ پوری کوشش کرے گی کہ زرینہ کو لینے آجائے۔ میں نے کہا تم زرینہ کی فکر نہ کرو وہ آرام سے ہے اور پھر میں نے اسکی زرینہ سے بھی بات کروا دی۔ وہ خاصی مطمئن ہوگئی۔ زرینہ بھی پہلے سے کچھ بہتر محسوس کر رہی تھی۔ ذرا دیر بعد میں نے زرینہ کو دوا دے دی۔ اور کہا تم اب سو جائو تمہاری نانی آئے گی تو میں تم کو جگا لونگا۔ اور یہ کہہ کر میں روم سے باہر نکل گیا۔ مجھے کل یونیورسٹی جانا بھی مشکل لگ رہا تھا۔ ابھی میں اپنے دماغ میں پلان کر ہی رہا تھا کہ دوست کا فون آیا اور اس نے بتایا کہ کل یونیورسٹی بند ہے شہر کے خراب حالات کی وجہ سے۔ میں دل ہی دل میں بہت خوش ہوا اور دعا کرنے لگا کہ ماسی نہ آسکے تو میں زرینہ کے ساتھ اپنی رات رنگین کر لوں۔میں نے ٹی وی لائونج والا ٹی وی آن کیا تو پتہ لگا شہر کے حالات مزید خراب ہو گئے ہیں اور شہر میں کرفیو لگ گیا ہے۔میں بہت خوش تھا کہ اب تو زرینہ کو یہاں ہی رکنا پڑے گا۔خیر میں تھوڑی دیر ادھر ہی گھومتا رہا گھر میں پھر بھوک لگنے لگی تو میں نے کچن میں جاکر کھانا گرم کیا اور جا کر زرینہ کو دیکھا تو وہ جاگ چکی تھی۔
میں اسکے قریب گیا اور پوچھا کیسی طبیعت ہے اب اور ساتھ ہی اسکی گردن کو ایک بار پھر اپنے ہاتھ سے چھوا اس طرح کے میری انگلیاں اسکی قمیض کے گلے کے اندر تھیں اور اسکے ممے کے اوپری حصے کو چھو رہی تھیں۔ اسکی جلد کافی چکنی تھی زرینہ کا بخار اتر چکا تھا۔میں نے مسکرا کر اسکو دیکھا جواب میں وہ بھی مسکرائی۔ میں نے اس سے کہا چلو میں نے کھانا گرم کر لیا ہے چل کر کھا لو۔اس نے کہا میں پوری پسینے میں بھیگی ہوئی ہوں میں شاور لینا چاہتی ہوں میں نے کہا ہاں جائو اندر باتھ میں گرم پانی سے شاور لینا۔اس نے اثبات میں سر ہلایا اور باتھ میں چلی گئی۔
ذرا دیر بعد اسکی آواز آئی عامر بھائی تولیہ نہیں ہے اندر میں نے جلدی سے تولیہ لیا اور اس سے کہا لے لو تولیہ اور دروازہ سے ذرا دور ایک سائیڈ پر کھڑا ہو گیا۔اس نے ذرا سا دروازہ کھولا جب میں نظر نہ آیا تو مزید کھولا بس میں اسی لمحے کے انتظار میں تھا میں ایک دم اسکے سامنے تولیہ ہاتھ میں لیے آگیا۔وہ پوری ننگی میرے سامنے تھی اسکا پورا بدن بھیگا ہوا سیکسی لگ رہا تھا۔وہ ایک دم ہڑبڑا گئی اور میں نے بھی ہڑبڑانے کی ایکٹنگ کی اور ساتھ ہی جلدی سے تولیہ اسکی جانب بڑھایا اور ایک سائیڈ پر ہوگیا اور پھر روم سے باہر نکل گیا۔ذرا دیر بعد وہ شرماتی ہوئی کھانے کی میز تک آئی۔ اور خاموشی سے چپ چاپ بیٹھ کر کھانا کھانے لگی۔ میں نے پوچھا اب کچھ بہتر لگ رہی ہو تم ۔ وہ کہنے لگی جی اب کافی بہتر ہوں۔ میں نے اسے بتایا کہ شہر کے حالات خراب ہیں اور کرفیو لگ گیا ہے نجانے تمہاری نانی کس طرح آئے گی تم کو لینے جس جگہ پر وہ ہے ابھی وہاں تو بہت ہی حالات خراب ہیں ورنہ میں تم کو خود چھوڑ آتا نانی کے پاس اگر وہ نہ آسکی تو تم کو رات یہیں رکنا ہوگا۔ یہ سن کر وہ تھوڑی پریشان ہو گئی۔
ابھی ہم کھانے سے فارغ ہی ہوئے تھے کہ ماسی کا دوبارہ فون آیا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ وہ کہاں ہے تو اس نے بتایا کہ وہ اسی گھر میں ہے اور اب نکل نہیں سکتی اور نہ وہ گھر والے اسے جانے دے رہے ہیں کیونکہ شہر میں کرفیو لگا ہے۔ میں نے پوچھا تو میں تمہارے پاس لے آئوں زرینہ کو وہ اب کافی بہتر ہے۔ تو اس نے پھر درخواست کی کہ میں اسے کہیں نہ جانے دوں اور رات رکنے کی اجازت دے دوں میں نے کہا مجھے اعتراض نہیں مگر تمہاری نواسی پریشان ہے اسکو تسلی دو یہ کہہ کر میں نے زرینہ کو فون دیا ماسی نے فون پر زرینہ سے نجانے کیا کہا ۔ کہ وہ کافی مطمئن ہوگئی۔ میں دل ہی دل میں بہت خوش تھا اور یہ موقع گنوانا نہیں چاہتا تھا۔ خیر زرینہ نے ہمت کر کے سارے برتن دھوئے۔کچن کی صفائی میں زرینہ کی مدد کرتا رہا۔ اور بار بار اسکے جسم کو بہانے بہانے سے چھوتا رہا۔ اور اسکی خوبصورتی کی تعریف کرتا رہا وہ کبھی خوش ہوتی کبھی شرماتی کیونکہ اسکو ٹھیک سے اندازہ نہیں تھا کہ وہ کیا بلا ہے۔
خیر وہ کام سے فارغ ہوئی تو میں نے اسکو کہا اب تم کو رات تو یہیں گذارنی ہے تو اسکو اپنا ہی گھر سمجھو۔ کسی بات میں شرمانے کی ضرورت نہیں ہے کچھ کھانے کا دل کر رہا ہے تو کھائو کوئی منع نہیں کرے گا۔زرینہ کے چہرے سے خوشی ظاہر ہو رہی تھی۔میں نے زرینہ سے کہا تمہاری دوا کا بھی وقت ہو گیا ہے تم دوا کھائو پھر ہم دونوں بیٹھ کر فلم دیکھتے ہیں۔میں نے اسے بتایا کہ کونسی دوا کھانی ہے اس نے دوا کھائی پھر ہم دونوں میرے روم میں آگئے۔میں اس سے ادھر ادھر کی باتیں کرتا رہا اسکو سیکس کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں تھیں۔ پھر میں نے پوچھا کہ فلم دیکھتی ہو تو اس نے جواب دیا کبھی کبھی دیکھتی ہے۔ تو میں نے پوچھا کیا اچھا لگتا ہے فلم میں تو اس نے جواب دیا گانے اور ڈانس۔
بس اب میں نے اپنا لیپ ٹاپ آن کیا اور ایک ویب سائٹ پر جا کر ایک سیکسی مجرا لگا دیا۔ پھر اس سے پوچھا ایسے ڈانس اچھے لگتے ہیں کیا۔ اس نے کہا ایسا تو کبھی نہیں دیکھا۔ میں نے کہا چلوآج دیکھو۔اس مجرے میں وہ ڈانسر اپنے ممے ہلا ہلا کر دکھا رہی تھی اور کافی دفعہ اس نے اپنی شرٹ اوپر کر کے اپنے ممے بھی دیکھا دیے میں بغور زرینہ کے چہرے کا جائزہ لے رہا تھا کہ وہ کیا محسوس کر رہی ہے۔بالآخر وہ وقت آیا جب اسکی سانس تیز ہوئی اور وہ بار بار اپنے بیٹھنے کی پوزیشن تبدیل کرنے لگی۔ تو میں نے پوچھا کیا ہوا اچھا نہیں لگا کیا ڈانس؟اس نے بچوں کی طرح منہ بنا کر کہا نہیں اچھا نہیں لگا۔
میں نے پھر پوچھا کیوں؟ اس نے کہا گندا ہے۔ میں ہنسنے لگا اور کہا کیوں گندا ہے وہ یہ دکھا رہی تھی اس لیے گندا ہے یہ کہتے ہوئے میں نے اسکے مموں کو چھوا اسکو ایک دم جیسے کرنٹ لگا۔ وہ ہراساں ہو کر مجھے دیکھنے لگی۔میں نے کہا پریشان نہ ہو میں تو مذاق کر رہا تھا۔ پھر کہا چلو فلم دیکھتے ہیں میں نے ڈھونڈ کر ایک سوفٹ کور مووی نیٹ پر لگا دی۔
ذرا دیر میں اس پر سیکسی سین اسٹارٹ ہوگئے جو کسنگ سے اسٹارٹ ہوئے اور پھر گھوڑی اسٹائل پر ختم اور ایک کے بعد ایک سین ذرا دیر میں شروع ہو جاتا تھا۔میں اسکا سرخ ہوتا چہرے بغور دیکھ رہا تھا اسکی سانسیں بھی بے ترتیب ہورہی تھیں۔ میں نے چپکے سے منہ اسکے کان کے پاس کیا اور پوچھا کیسی ہے فلم؟ اس نے چونک کر مجھے دیکھا اور اپنے چہرے کے اتنے قریب دیکھ کر بدحواس ہو گئی۔میں نے ہمت کر کے اسکا ہاتھ پکڑا جسکو اس نے چھڑایا نہیں اسکو کیا معلوم تھا کہ میں نے اسکا ہاتھ کیوں پکڑا ہے۔دوسرے ہاتھ سے میں نے اسکا چہرہ پکڑ کر اپنے مزید نزدیک کیا اور ایک کس کی اسکے گال پر۔ اور آہستہ سے اسکے کان میں کہا تم بہت خوبصورت ہو زرینہ۔ میری بات سن کر اسکا چہرہ مزید سرخ ہوگیا مجھے اسکا جسم گرم لگنے لگا۔ مگر یہ گرمی کسی اور بخار کی تھی جو دوا سے اترنے والا نہیں تھا۔مجھے خوشی یہ تھی کہ وہ کسی قسم کی مزاحمت نہیں کر رہی تھی۔
میں نے مزید ہمت کی اور اپنا ایک ہاتھ اسکے ایک ممے پر رکھ دیااور اسکو ہلکا سا دبایا مجھے اسکے جسم میں کپکپاہٹ صاف محسوس ہو رہی تھی۔اسکی سانس اب اتنی تیز تھی جیسے کافی دور سے دوڑ کر آرہی ہو۔اسکا جسم کافی کم سن عمر کی لڑکی کا جسم تھا۔ مگر اسکے ممے اور اسکی گانڈ اتنی زبردست تھی کہ دیکھنے والا چودنے کی خواہش ضرور کرےگا۔ اب میں نے اسکے نازک ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں دبا لیا اور چوسنے لگا میں نے دیکھا کہ زرینہ نے آنکھیں بند کر لی تھیں اور وہ مزہ لے رہی تھی۔میری اور ہمت بڑھی اور میں نے اسکو اپنی بانہوں میں جکڑ لیا اور اپنے سینے سے چمٹالیا۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس نے بھی مجھے کسی فلمی ہیروئین کی طرح جکڑ لیا۔بس اب کیا تھا اب تو میں نے بے تحاشہ اسکو کس کرنا شروع کردیا۔
وہ میری کسنگ سے ہی مدہوش ہونے لگی تھی۔ ابھی تو بڑی منزلیں باقی تھیں ابھی تو میری اس رانی کو انکا بھی مزہ چکھنا تھا۔اسکے ممے میرے سینے سے بری طرح مسلے جا رہے تھے مگر اسکو پرواہ نہیں تھی۔ وہ بھرپور مزہ لے رہی تھی۔اب میں نے کسنگ بند کی اور اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنے لنڈ پر رکھا ۔ وہ ادھ کھلی آنکھوں سے مدہوش ہو کر کبھی مجھے دیکھتی اور کبھی اپنے ہاتھ کو جو میرے لنڈ پر تھا میرا لنڈ میری جینز سے باہر آنے کو مچل رہا تھا۔میں نے اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا کبھی دیکھا ہے کسی کو ننگا ؟ اس نے جواب نفی میں صرف سر ہلا کر دیا۔ میں نے پوچھا یہ جس چیز پر تمہارا ہاتھ ہے اسکو دیکھو گی ۔ اس نے کوئی جواب نہیں دیا اور نظر میری لنڈ پر گاڑ دی۔ میں نے اس حرکت کو مثبت جواب سمجھا اور گھٹنوں کے بل کھڑے ہو کر اپنی جینز کی زپ کو کھولا اور اس سے کہا اپنا ہاتھ ڈالو اندر۔ اس نے ذرا بھی جنبش نہیں کی میں نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنی جینز کی کھلی ہوئی زپ پر رکھا تو اس نے خود کوشش کی ہاتھ کو اندر ڈالنے کی وہ تھوڑا جھجھک رہی تھی ورنہ میرا یقین یہ تھا کہ وہ بھی سب کچھ چاہ رہی ہے مگر اسکو کیا اندازہ کہ سب کچھ کیا ہے۔خیر کسی طرح اس کا ہاتھ میری زپ کے اندر چلا گیا اب میرے لنڈ اوراسکے نازک ہاتھ کے درمیان صرف انڈر وئیر تھی۔
میں نے پوچھا کیسا لگا تم کو یہ۔ تو اس نے شرما کر منہ دوسری طرف کر لیا۔بس اسی دم میں نے اپنی جینز کا بٹن کھول دیا اور اسکا ہاتھ باہر نکالا۔ اور فرش پر کھڑے ہو کر اپنی جینز اتار دی اب میں صرف انڈروئیر اور شرٹ میں تھا۔لنڈ بری طرح سخت ہو رہا تھاانڈروئیر میں جسکی وجہ سے مجھے تکلیف ہو رہی تھی۔اس نے جیسے ہی مجھے ننگا دیکھا دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ چھپا لیا۔مجھے اسکی اس ادا پر بہت پیار آیا۔میں اسکے قریب آیا اور اسکا ایک ہاتھ پکڑ کر اپنے لنڈ پر پھر سے رکھا اور کہا انکھیں کھولو۔ اس نے آنکھیں کھولی اور میری چھپے ہوئے لنڈ کو دیکھا۔ میں نے کہا چلو میری انڈر وئیر اتارو اس کے منہ سے بے اختیار نہیں نکلا۔ میں نے کہا یار کیا شرما رہی ہو تم ابھی میں نے بھی تو تم کو ننگا دیکھا تھا جب تم باتھ روم میں تھی ۔ وہ سین یاد آتے ہی اسکا چہرہ پھر سے سرخ ہونے لگا۔خیر میں نے اسکے دونوں ہاتھ پکڑ کر اپنی انڈر وئیر ان میں دی اور اس سے کہا چلو زرینہ اتارو اسے اس نے کپکپاتے ہاتھوں سے میری انڈروئیر کو نیچے کیا جیسے ہی انڈروئیر نیچے ہوئی میرا لمبا موٹا پھنپھناتا ہوا لنڈ ایک جھٹکے سے باہر نکلا اور اوپر نیچے ہو کر زرینہ کو سلامی دینے لگا۔ مگر زرینہ ایک دم اچھل کر ایسے پیچھے ہوئی جیسے سانپ دیکھ لیا ہو۔باقی انڈروئیر میں نے خود اتاری پھر ساتھ ہی شرٹ بھی اتار کر میں کپڑوں سے آزاد ہو گیا۔ اب زرینہ کے اور قریب ہوا تو وہ پیچھے ہٹنے لگی۔ میں نے کہا اسکو ہاتھ میں لو۔ تو وہ نہ مانی تو میں نے زبردستی اسکے ہاتھ پکڑ کر اپنے لنڈ پر رکھ دیئے پہلے تو وہ ڈری مگر پھر کچھ سیکنڈ میں اس نے میرا لنڈ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔اسکے نازک ہاتھ کا لمس ملتے ہی میرا لنڈ مزید لمبا اور سخت ہونے لگا۔میرا لمبالنڈ اسکے ہاتھ میں پورا بھی نہیں آرہا تھا۔میں نے اس سے کہا چلو اس پر پیار کرو۔ وہ نہ مانی مگر بار بار کہتا رہا آخر اس نے ہمت کی اور میرے لنڈ کے ٹوپے پر ایک ہلکی سی کس کی۔ پھر میں نے اس سے کہا اسکو منہ میں لو اور لولی پوپ کی طرح چوسو۔ اس نے صاف منع کردیا تو میں نے کہا ابھی جو فلم میں سب دیکھا تھا نا ویسا کرنا ہے تم کو۔ خیر بڑی دیر تک منایا تو اس نے میرا لنڈ اپنے منہ میں لیا۔ اتنی دیر بحث کرنے میں لنڈ تھوڑا ڈھیلا ہوگیا تھا مگر جیسے ہی زرینہ کہ منہ کا گیلا پن اور گرمی اسکو ملی اس میں واپس سے کرنٹ دوڑ گیا اور وہ زرینہ کے منہ میں رہتے رہتے ہیں پورا تن کر کھڑ اہوگیا۔اب میرا لنڈ پورا تیار تھا اب زرینہ کی چوت کو تیار کرنا تھا جو ذرا مشکل کام تھا، میں نے زرینہ کا تعارف اپنے لنڈ سے سرسری طور پر تو کروا دیا تھا مگر اب اصل تعارف کی باری تھی۔میں نے زرینہ سے کہا اپنی شرٹ اتارو مجھے تمہارے سینے پر پپی کرنی ہے وہ بہت شرمائی اور منع کرتی رہی مگر میں نے اسکو بہت سمجھایا کہ کوئی بھی نہیں دیکھ رہا میرے سوا اور نہ کسی کو پتہ لگے گا۔ تو آخر کار وہ مان گئی اور جیسے ہی اسکی شرٹ اتری اسکے 32 سائز کے ممے اچھل کر سامنے آئے۔ ایک دم ٹینس بال کی طرح گول اسکے نپلز گلابی اور نوکیلے تھے۔سو فیصد سیل آئٹم تھی وہ میری رانی۔اسکا بدن اتنا گورا تو نہیں مگر اسکی جلد میں بہت کشش تھی۔ایک دم نمکین۔ میں نے جلدی سے پہلا حملہ کیا اور اسکا ایک مما اپنے منہ میں لے کر بے تحاشہ چوسنا شروع کیا اسکے منہ سے آہیں نکلنے لگیں۔ جیسے ہی میں اسکے نپلز کو چوستا اسکا پورا بدن اکڑ جاتا تھا۔ میں کافی دیر اسکو اسی طرح مست کرتا رہا۔وہ بے حال ہو رہی تھی۔پھر اسکو ہوش نہ رہا اور میں نے خاموشی سے اپنا ایک ہاتھ اسکی شلوار میں داخل کردیا اسکی شلوار میں الاسٹک تھی۔میں سیدھا اپنا ہاتھ اسکی شلوار میں گھسیڑتا ہوا اسکی چوت تک لے گیا اور اسپر اپنی ایک انگلی رکھ کر ہلکا سا دبایا تو ایک دم زرینہ کو جیسے ہوش آگیا۔مگر مجھ پر بھی یہ انکشاف ہوا کہ اسکی چوت پوری طرح گیلی تھی۔اسنے خود کو کنٹرول کرنے کے لئے اور کچھ سمجھ نہ آیا تو میرا ہاتھ اپنی دونوں ٹانگوں کے بیچ دبا لیا۔مگر اس سے کیا ہوتا میری انگلی تو اسکی چوت پر دستک دے رہی تھی۔ میں نے صرف انگلی سے ہی اسکی چوت کو سہلانا شروع کردیا۔ وہ کسمساتی رہی مگر میں باز نہ آیا ، آج میں اسے جنگلیوں کی طرح چودنا چاہتا تھا سو میں اس پر ذرا بھی رحم کرنے کو تیار نہ تھا۔کافی دن کے بعد تو ایک کنواری لڑکی ہاتھ آئی تھی ورنہ تو آنٹیاں ہی کثرت سے ملا کرتی تھیں۔ خیر ذرا دیر بعد اس نے یہ معمولی سی مزاحمت بھی چھوڑ دی اور اپنی ٹانگیں کھول دیں اور مموں کے ساتھ ساتھ وہ اپنی چوت کو سہلائے جانے کا بھی مزہ لے رہی تھی۔بخار کی وجہ سے اسکو تھوڑی کمزوری تو پہلے ہی تھی اسی لیے وہ جلدی مدہوش بھی ہوئی اور نشے سے چور۔اب میں نے ذرا دیر مزید اسکی چوت کو سہلایا اور پھر اس سے پوچھے بنا اسکی شلوار بھی اتار دی۔ اب ہم دونوں کپڑوں سے بالکل آزاد تھے۔میں نے چاٹ چاٹ کر اسکا جسم گیلا کردیا تھا اسکا بدن بہت چکنا تھا بس ملائی تھی وہ پوری۔میرا لنڈ جو ڈھیلا ہوچکا تھا وہ واپس سے پورا تن چکا تھا، اور زرینہ کی چوت میں انٹری مانگ رہا تھا۔میں زرینہ کو چومتے چومتے اس پوزیشن میں آگیا کہ میں زرینہ کے اوپر پورا لیٹ چکا تھا اور میرا لنڈ اسکی دونوں ٹانگوں کے بیچ تھا زرینہ کو نہیں معلوم تھا کہ میرا لنڈ اسکی چوت میں جائے گا اور وہ اس طرح حاملہ ہو سکتی ہے ۔
اگر یہ سب اسے علم ہوتا تو وہ کب کی میرے گھر سے بھاگ چکی ہوتی۔وہ تو بس اپنے جسم کو سہلائے جانے سے جو مزہ مل رہا تھا اسکو انجوائے کر رہی تھی۔زرینہ کی چوت سے کافی پانی نکل چکا تھا اور وہ پوری گیلی تھی میں نے اپنا لنڈ اسکی چوت پر ذرا دیر رگڑا اور اسکا ٹوپا پوری طرح زرینہ کی چوت کے پانی سے گیلا کیا۔پھر زرینہ سے کہا تھوڑی سی ٹانگیں کھولو۔اس نے فوراً میری بات مان لی بس اب مجھے جلدی اپنا لنڈ اسکی چوت میں ڈالنا تھا اگر اسکو ذرا بھی سنبھلنے کا موقع ملتا تو تکلیف کی وجہ سے وہ مجھے کبھی اپنی چوت میں داخل نہ ہونے دیتی۔میں نے بھی وقت ضائع نہ کیا اور لنڈ کو سیدھا کر کے اسکی چوت کے منہ پر سیٹ کیا اور ایک ہی جھٹکے میں پورا ٹوپا اسکی چوت میں گھسیڑ دیا۔ زرینہ کے منہ سے ایک چیخ نکلی اور ساتھ ہی آنکھوں سے آنسو وہ میری منتیں کرنے لگی کے میں اپنا لنڈ واپس نکال لوں میں اسکو تسلیاں دینے لگا اور اسی بحث میں ذرا دیر گذری تو زرینہ کا درد ختم ہو گیا میں نے اس سے پوچھا اب بھی درد ہے کیا اس نے کہا نہیں مگر اسکو باہر نکالو۔میں نے اسے پھر بہلایا بس ذرا دیر اندر رہنے دو پھر نکال لونگا۔ یہ کہہ کر میں اسکے ہونٹ چوسنے لگا۔ وہ بھی چوت کو بھول کر ہونٹ چوسنے میں ساتھ دینے لگی۔بس یہ موقع کافی تھا ویسے ہی لیٹے لیٹے میں نے ایک زور کا جھٹکا مارا اور آدھے سے زیادہ لنڈ اسکی چوت میں گھسیڑ دیا۔ایک بار پھر وہ درد سے بلبلانے لگی مگر اس بار اسکا منہ میں نے اپنے منہ سے بند کیا ہوا تھا۔وہ میری کمر پر اپنے ناخنوں سے بری طرح نوچنے لگی۔مگر میں اب کہاں اسکو چھوڑنے والا تھا۔کونسا ایسا لنڈ ہوگا جسکے سامنے گیلی چوت ہو اور وہ اس میں نہ جانا چاہے خاص طور پر وہ چوت جس میں کوئی لنڈ کبھی گیا ہی نہ ہو۔
خیر تھوڑی دیر میری کمر نوچنے کے بعد وہ ٹھنڈی ہونے لگی اور نڈھال بھی۔اب اس نے خود کو میرے حوالے کردیا تھا۔میں نے اسکے ہونٹوں سے ہٹ کر اسکا چہرہ دیکھا وہ آنسو سے بھیگا ہوا تھا مجھے ایک لمحے کو اس پر ترس تو آیا مگر اگلے لمحے اسکی نرم گرم گیلی چوت کا لمس اپنے لنڈ پر محسوس کرتے ہی میں نے اس کی کوئی پرواہ نہ کی۔اب میں سیدھا ہو کر اسکی دونوں ٹانگوں کے بیچ بیٹھا تو دیکھا میرا لنڈ اسکی چوت سے نکلنے والے خون سے سرخ ہو رہا تھا میں نے سوچا اگر ابھی صفائی کا سوچا تو اس رانی کا دماغ بدل جائے گا۔ سو بس تھوڑا سا لنڈ باہر نکالا اور پھر آہستہ سے اندر کیا ایک بار پھر اسکی منہ سے سسکاری نکلی۔ مگر شاید اسکو تکلیف نہ تھی۔ تو اب فیصلہ کیا فوراً ہی پورا لنڈ اندر ڈالو اور بس شروع کرو چدائی۔ بس دو چار بار اسی طرح میں نے لنڈ اندر باہر کیا اور ایک بار بھرپور جھٹکا مارا تو میرا پورا لنڈ اسکی چوت میں گھس گیا۔ وہ ایک بار پھر سے پھڑپھڑائی۔ مگر جلد ہی خود ہی سنبھل گئی۔
اب میں نے لنڈ کو اندر ہی رکھ کر ذرا اور دبایا تو اسکے چہرے پر تکلیف کے آثار نہ دیکھ کر میں سمجھ گیا چوت تیار ہے زبردست چدائی کے لئے۔بس اب میں نے لنڈ کو پہلے آہستہ آہستہ اندر باہر کیا اور ذرا دیر بعد اپنی رفتار بڑھا دی۔اب میرے ہر جھٹکے پر اسکے منہ سے آہ تو نکلتی تھی مگر چہرے پر تکلیف کے آثار نہیں بلکہ ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔ ذرا دیر بعد وہ مزے کی بلندیوں کو چھونے لگی۔ اور اپنا سر کبھی دائیں کبھی بائیں کرتی کبھی ہاتھ سے اپنے ممے دباتی کبھی ہونٹ دانتوں سے دباتی۔اچانک اسکے منہ سے تیز تیز آہیں نکلیں اور ایک دم اسکا جسم اکڑا اور جھٹکے لے کر کپکپانے لگا۔میں سمجھ گیا اسکی چوت اپنا پانی اگل رہی ہے۔ مجھے ابھی فارغ ہونے میں وقت تھا۔جیسے ہی اسکی چوت نے پانی اگلا میں نے جلدی سے لنڈ باہر نکالا وہ نڈھال ہو کر چاروں شانے چت بیڈ پر پڑی دعوت دے رہی تھی کے آئو اور چود ڈالو۔ میں جلدی سے اپنی الماری کی طرف بڑھااور وہاں سے ایک کونڈم نکال کر اپنے لنڈ پر چڑھایا اور دوبارہ سے پورا لنڈ اسکی چوت میں ڈال دیا۔ ایک بار پھر وہ ہی جھٹکوں کے سلسلے۔ ذرا دیر میں وہ دوبارہ چارج ہوئی اور پھر اسکی منہ سے آہیں نکلنے لگیں مگر اس بار وہ اپنی چوت کو اچھال کر میرا پورا پورا لنڈ وصول کر رہی تھی۔تھوڑی دیر اسی طرح چدائی کے بعد میرے لنڈ نے بھی لاوا اگلنا شروع کیا اور اسی وقت اسکی چوت نے بھی دوبارہ پانی چھوڑا۔ میں نے اپنی منی کا آخری قطرہ بھی کونڈم میں اسکی چوت کے اندر ہی نکال دیا۔
تھوڑی دیر اسی طرح نڈھال پڑے رہے ہم دونوں پھر پہلے میں اسکو لے کر باتھ گیا وہاں اسکو اچھی طرح دھویا اس سے اب ٹھیک سے کھڑا بھی نہیں ہوا جا رہا تھا۔پھر میں نے باتھ لیا اور کپڑے تبدیل کئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی رات ایک بار پھر میں نے اور زرینہ نے بھرپور چدائی کی مگر اس بار زرینہ ایک پوری پوری رنڈی کی طرح مجھے ملی