• If you are trying to reset your account password then don't forget to check spam folder in your mailbox. Also Mark it as "not spam" or you won't be able to click on the link.

Adultery WO bholi hwi dastan

Kahni kesi ha

  • Good

    Votes: 0 0.0%
  • Bad

    Votes: 0 0.0%

  • Total voters
    0
  • Poll closed .

Rehan Q

New Member
19
10
19
Update no 1....???
دوستو،،، میں سیالکوٹ کے کہ ایک نواحی گاوں کے متوسط گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں یہ سٹوری ھے ان دنوں کی جب مکاں کچے اور لوگ سچے ہوا کرتے تھے
جب گاوں کے اٹھارہ سال تک کے لڑکے اور لڑکیاں سیکس نام کی کسی چیز کے واقف نھی ھوتے تھے
اسی لیے سب ایک دوسرے کے گھروں میں بلاجھجک چلے جاتے تھے میری عمر اس تقریباً 14 /15سال کے لگ بھگ ھوگی ہمارے گاوں میں صرف ایک ھی پرائمری سکول تھا جس میں صرف دو کمرے ھوتے تھے اور اس سکول میں دو ماسٹر جی پڑھاتے تھے ایک ماسٹر جی تقریباً چالیس سال کا تھا جس کا نام جمال دین تھا اور ایک ماسٹر صفدر صاحب تھے جو تقریباً اٹھائیس تیس سال کے لگ بھگ ھوں گے جو شہر سے پڑھانے آتے تھے سکول میں ایک کلاس میں پہلی سے تیسری کلاس کے بچے پڑھتے تھے اور دوسری کلاس میں چوتھی اور پانچویں کلاس کے بچے پڑھتے تھے
میں اس وقت چوتھی کلاس میں اچھے نمبروں سے پاس ھوا تھا اور میرے ابو جان مجھے شہر کے سکول میں داخل کروانے کے بارے میں امی جان سے بحث کررھے تھے
شہر کہ سکول کا سن کر میرے تو پاوں زمین پر نھی لگ رھے تھے
اور دل میں طرح طرح کے لڈو پھوٹ رھے تھے بڑی بڑی عمارتیں بڑی بڑی گاڑیوں اور شہر کی رونق کے خیالوں میں ڈوبا میں امی جان اور ابو جان کے بحث مباحثہ کو سن رھا تھا
امی جان میرے شہر جانے سے منع کررھی تھی کہ ابھی یاسر بچہ ھے چھوٹا ھے ناسمجھ ھے کیسے شہر جاے گا امی ابو طرح طرح کی دلیلیں دے کر منع کررھی تھی کہ یاسر کو ایک سال اور پڑھنے دو پھر کچھ سمجھدار ھو جاے گا تو چلا جاے گا آخر کار کافی دیر کی بحث مباحثے کے بعد جیت امی جان کی ھوئی میں نے جب اپنے ارمانوں پر پانی پھرتے دیکھا تو رونے والا منہ بنا کر باہر نکل کر آنٹی فوزیہ کے گھر کی طرف چل پڑا جو ہماری ھی گلی میں رہتی تھی انکا گھر ھمارے گھر سے پانچ چھ گھر چھوڑ کر آتا تھا میں آنٹی فوزیہ کے گھر داخل ھوا اور اونچی آواز میں سلام کیا آنٹی فوزیہ بہت ھی نرم دل اور پیار کرنے والی خاتون تھی انکا قد پانچ فٹ چھ انچ اور چھاتی چھتیس انچ کی اور پیٹ بلکل اندر کی طرف تھا اور ہلکی سی گانڈ باہر کو نکلی ھوئی تھی رنگ انکا سفید تھا دوستو یہ سب مجھے اس وقت نھی پتہ تھا بلکہ بعد میں پتہ چلا آپکو پہلے بتانا ضروری سمجھا اس لیے بتا دیا،،
میں نے آنٹی فوزیہ کو دیکھا جو صحن میں لگے بیری کے درخت کے نیچے چارپائی پر بیٹھی سبزی بنا رھی تھی میں چلتا ھوا آنٹی فوزیہ کے پاس پہنچ گیا آنٹی فوزیہ نے مجھے دیکھ کر میرے سر پر پیار دیا اور کہا آگیا میرا شزادہ لگتا ھے آج گھر سے مار پڑی ھے میں منہ لٹکاے آنٹی فوزیہ کے پاس بیٹھ گیا آنٹی فوزیہ بولی کیا ھوا ایسے کیوں رونے والا منہ بنا رکھا ھے میں نے آنٹی فوزیہ کو ساری روداد سنا دی
آنٹی فوزیہ نے مجھے اپنے کندھے کے ساتھ لگا لیا اور مجھے پیار سے سمجھانے لگ گئی کہ دیکھ پُتر تیری امی کو تجھ سے پیار ھے تو ھی تجھے شہر جانے سے روک رھی ھے اور تم لوگوں کے حلات بھی ابھی ایسے ہیں کہ شہر جانے کے لیے ٹانگے کا کرایہ نھی دے سکھی میںنے آنٹی کی بات کاٹتے ھوے کہا وہ گاما تانگے والا بچوں کو شہر لے کر تو جاتا ھے تو آنٹی فوزیہ بولی دیکھ پُتر وہ زمینداروں کے بچے ہیں وہ لوگ تانگے کا کرایہ دے سکتے ہیں تم ایک سال اور پڑھ لو پھر پھر عظمی اور نسرین(آنٹی فوزیہ کی بیٹیاں) بھی شہر جانے لگ جائیں گی تو تم بھی اپنی بہنوں کے ساتھ پیدل ہی نمبرداروں کی زمین کے بنے بنے نہر کی طرف سے چلے جایا کرنا ابھی دل لگا کر پڑھو میں جیسے تمہارے امی ابو کہتے ہیں انکی بات مانو میں نے اچھے بچوں کی طرح ہاں میں سر ہلایا تو آنٹی فوزیہ نے پیار سے میرے سر پر ہاتھ رکھ کر اپنے ساتھ لگا لیا اور شاباش دیتے ھوے بولی یہ ھوئی نہ بات،، میں نے آنٹی فوزیہ سے پوچھا کہ عظمی کدھر ھے تو آنٹی بولی وہ کمرے میں موڈ بنا کر بیٹھی ھے نسرین تو ٹیوشن چلی گئی ھے مگر یہ ایسی ضدی لڑکی ھے کہ میرا کہنا ھی نھی مانتی میں یہ سن کر انٹی کے پاس سے اٹھا اور عظمی کے پاس چلا گیا میں نے دیکھا کہ عظمی سر جھکائے کرسی پر بیٹھی ھوئی ھے،
میں نے جاتے ھی عظمی کو چھیڑنے لگ گیا کہ چنگی مار پئی اے نہ آ ھا آھا تو عظمی نے جوتا اٹھایا اور میرے پیچھے بھاگ پڑی میں آگے آگے بھاگتا کمرے سے باہر آگیا اور آنٹی کے پاس آکر رک گیا آنٹی فوزیہ نے عظمی کو ڈانٹا کہ کیوں میرے شزادے کو مار رھی ھو تو عظمی بولی تواڈا شزادہ ھوے گا میرے ناں سر چڑیا کرے آیا وڈا شزادہ بوتھی ویکھی شزادے دی میں نے بھی عظمی کو منہ چڑھا دیا عظمی زمین پر پاوں پٹختی واپس کمرے میں چلی گئی
دوستو
آنٹی فوزیہ کی بس دو ھی بیٹیاں تھی وہ بھی جڑواں اس کے بعد ان کے ہاں اولاد نھی ھوئیانکا کوئی بیٹا نھی تھا اس لیے مجھے وہ اپنے بیٹے کی طرح پیار کرتی تھی میرا بھی ذیادہ وقت انکے ھی گھر گزرتا تھا اور انکے گھر یا باہر کے کام سودا سلف وغیرہ میں ھی لا کر دیتا تھا ویسے تو میں اپنے گھر میں نعاب تھا وہ اس لیے کہ میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا اس لیے گھر کا لاڈلا بھی تھا باقی بہن بھائی سب مجھ سے بڑے تھے
عظمی اور نسرین میری ہم عمر ھی تھی نسرین کی نسبت عظمی ذیادہ خوبصورت تھی نسرین بھی کم خوبصورت نھی تھی مگر عظمی کا رنگ نسرین کی نسبت ذیادہ سفید تھا اور جسمانی طور پر بھی عظمی نسرین سے ذیادہ سیکسی تھی عظمی کا قد تقریباً میرے ھی جتنا پانچ فٹ تھا مگر ہم ساتھ کھڑے ھوتے تھے تو عظمی مجھ سے چھوٹی ھی لگتی تھی ویسے عظمی صحت کے معاملے میں مجھ سے ذیادہ صحت مند تھی عظمی کا رنگ کافی سفید تھا جیسے کشمیری ھو اور جسم بھی بھرا بھرا تھا پندرہ سال کی ھی عمر میں اسکے ممے چھوٹے سائز کے مالٹے جتنے تھے اور پیچھے سے بُنڈ بھی کافی باھر کو نکلی ھوئی تھی میں اکثر اسے موٹو کہہ کر بھی چھیڑ لیتا تھا جبکہ نسرین دبلی پتلی سی تھی اسکے بھی چھوٹے چھوٹے ممے تھے مگر .عظمی سے کم ھی تھے
 

Rehan Q

New Member
19
10
19
Update no 2......
میں دوبارا عظمی کے کمرے میں گیا اور عظمی کو منانے لگ گیا کافی کوشش کے بعد آخر کار میں اسے منانے میں کامیاب ھوگیا میں اور عظمی آنٹی فوزیہ کو کھیلنے کا کہہ کر باھر گلی میں آگئے آنٹی فوزیہ نے پیچھے سے آواز دی کہ جلدی آ جانا ذیادہ دور مت جانا ہم نے آنٹی فوزیہ کی بات سنی ان سنی کی اور گلی میں نکل کر کھیت کی طرف چل پڑے
دوستو ھماری گلی کی نکڑ پر سڑک تھی اور سڑک کی دوسری طرف کھیت شروع ھوجاتے تھے سڑک کے ساتھ والا کھیت خالی ھوتا تھا اس میں کوئی فصل نھی ھوتی تھی جبکہ اس کھیت کے آگے والے کھیتوں میں فصل کاشت کی جاتی تھی اور اس وقت کپاس کی فصل کا موسم تھا اور کپاس کے پودے اس وقت تقریباً پانچ فٹ تک ھوتے تھے اور کپاس کی فصل کے آگے والے کھیت جو نہر کے قریب تھے ان میں مکئی کی فصل کاشت کی ھوئی تھی اور جو دوست گاوں کے رھنے والے ہیں وہ جانتے ہیں کہ مکئی کے پودے چھ سات بلکل آٹھ فٹ تک اونچے ھوتے ہیں اور ان کھیتوں کے درمیان ایک پگڈنڈی جسے ہم بنا کہتے تھے وہ کپاس اور مکئی کے کھیتوں کے بیچوں بیچ نہر کی طرف جاتی تھی اور نہر پر چھوٹا سا لکڑی کا پل تھا جسکو کراس کر کے لوگ یا سکول کے بچے شہر کی طرف جاتے تھے ھمارے گاوں اور شہر کا فاصلہ تقریباً دو کلو میٹر تھا
خیر ہم دونوں نے سڑک کراس کی اور کھیت میں چلے گئے جہاں پہلے ھی کافی سارے ہمارے ہم عمر لڑکے اور لڑکیاں کھیل رھے تھے جن کی عمر دس سے پندرہ سال ھی تھی کچھ ہماری گلی کے کچھ ادھر ادھر کی گلیوں کے تھے
دوستو،، ہمارا پسندیدہ کھیل لُکن میٹی سٹیپو باندر کِلا وانجو پکڑن پکڑائی ھونے؟؟؟؟؟
جب ہم کھیت میں پہنچے تو سب بچے ہاتھوں پر ہاتھ مار کر چُھپن چھپاٰئی کی باریاں لے رھے تھے ہمیں آتا دیکھ کر ہماری گلی کا ھی ایک لڑکا زاہد جو ہمارا سب سے اچھا دوست تھا وہ غصے سے بولاآگئی ہنساں دی جوڑی اینی دیر کردتی یار میں نے کہا یار ایس میڈم نے دیر کرادتی رُس کے بیٹھی تھی نواب زادی تو میں اور عظمی نے بھی اپنی اپنی باری پُگی اور تین بچوں کی باری آگئی جنہوں نے باقی بچوں کو ڈھونڈنا تھا
ہم سب چُھپنے کے لیے کپاس کی فصل کی طرف بھاگے سب بچے علیحدہ علیحدہ اپنی اپنی جگہ پر چھُپ گئے جبکہ میں اور عظمی کپاس کی فصل میں سے ھوتے ھوے کافی آگے کی طرف نکل آے تو عظمی بولی یاسر بس ادھر ھی چھپ جاتے ہیں میں نے سنا ھے کہ مکئی میں اوندے سور آے ھوے ہیں دوستو ان دنوں ہمارے گاوں میں افواہ پھیلی ھوئی تھی کہ نہر کے پاس کھیتوں میں سور آے ھوے ہیں اس لیے ھو بھی ادھر جاے احتیاط سے جاے، مگر ہماری عمر ڈرنے کی کہاں تھی بس سکول سے آتے ھی کھیل کھیل بس کھیل نہ کھانے کی فکر نہ پینے کی نہ گرمی نہ سردی کی فکر میں نے عظمی کو تسلی دی کہ کچھ نھی ہوتا یار پنڈ والے ایویں چولاں ماردے نے کہ کوئی چھلیاں نہ توڑےعظمی بولی نئی یاسر مجھے ڈر لگ رھا ھے
تو ہم ایسے ھی باتیں کرتے کرتے کپاس کی فصل کے آخر میں پہنچ گئے جہاں ایک پانی کا کھالا تھا جسکو کراس کر کے دوسری طرف مکئی کی فصل شروع ھوجاتی تھی کھالے کے ساتھ ساتھ کافی بڑے بڑے مختلف قسم کے درخت تھے
میں نے عظمی کو کہا چلو ہم درختوں کے پیچھے چھپ جاتے ہیں یہاں سے ہمیں وہ ڈھونڈ نھی سکیں گے میں نے چھلانگ لگا کر کھالا کراس کیا اور پھر عظمی نے بھی ڈرتے ڈرتے چھلانگ لگائی اور میں اسکی ھی طرف منہ کر کے کھڑا تھا عظمی نے جب چھلانگ لگائی تو سیدھی آکر میرے سینے سے ٹکرائی میں نے اسکو بانھوں میں بھر کر سنبھال لیا ایسا کرنے سے اس کے ممے میرے سینے میں پیوست ھوگئے
ہمارے ذہن اس وقت سیکس سے بلکل پاک ھوتے تھے اس لیے کبھی بھی ذہن میں کوئی گندا خیال نھی آیا تھا میں اکثر کبھی کبھی عظمی کو جپھی ڈال کر اوپر کی طرف اٹھا کر گھمانے لگ جاتا تھا اور اس کا وزن ذیادہ ھونے کی وجہ سے کبھی کبھار ایک دوسرے کے اوپر گر بھی جاتے تھے ۔۔۔
عظمی جب مجھ سے ٹکرائی تو میں نے اسے سنبھال کر ٹالی کے درخت کے پیچھے لے آیا اور عظمی میرے آگے کھڑی ھوگئی اور میں عظمی کے پیچھے اسکی بُنڈ کے ساتھ لگ کر کھڑا ھوگیا اور دونوں آگے پیچھے اپنے سروں کو نکال کر سامنے بنے کی طرف دیکھنے لگ گئے میرا لن جو اس وقت کوئی چار ساڑے چار انچ کا ھوگا جو سویا ھوا عظمی کی بُنڈ کے دراڑ کے اوپر بلکل ساتھ چپکا ھوا تھا اور ہم ڈھونڈنے والوں کا انتظار کرنے لگ گئے کہ اچانک عظمی نےگبھرائی ہوئی آواز میں کہا یاسر مجھے لگ رھا ھے جیسے مکئی میں کوئی ھے چلو ادھر سے میں پیچھے سے عظمی کے ساتھ بلکل چپکا ھوا تھا یہ بات نھی تھی کہ مجھے سیکس والا مزہ آرھا تھا بس ویسے ھی مجھے عظمی کی نرم نرم گانڈ کے ساتھ. چپک کر کھڑے ھونا اچھا لگ رھا تھا میں نے عظمی کو کہا کوئی بھی نھی ھے یار ایک تو تم ڈرپوک بہت ھو عظمی کچھ دیر اور کھڑی رھی
پھر اس نے مجھے پیچھے کیا اور جلدی سے کھالے پر سے چھلانگ لگا کر دوسری طرف چلی گئی اور مجھے کہنے لگی تم کھڑے رھو میں تو جارھی ھوں میں بھی چارو ناچار اسکے پیچھے ھی کھالا پھیلانگ چل پڑا تب ہمیں بچوں کی آوازیں بھی سنائی دینے لگ گئی کی انہوں نے کسی بچے کو ڈھونڈ لیا تھا اس لیے خوشی میں شور مچارھے تھے ہم دونوں بھی اتنی دیر میں ان بچوں کے پاس جا پہنچے پھر کچھ دیر ہم نے ادھر کی پکڑن پکڑائی کھیلتے رھے اور پھر شام ھونے لگی تو ہم اپنے اپنے گھروں کی طرف چل دیے
ایسے ہی وقت گزرتا رھا سکول سے گھر اور گھر سے کھیل کود ایک دن ہم سکول میں اپنی کلاس میں بیٹھے تھے کلاس کیا تھی نیچے ٹاٹ بچھے ھوتے تھے جدھر جدھر چھاوں جاتی ادھر ادھر ہماری کلاس گھیسیاں کرتی کرتی جاتی ہمارے ٹیچر سر صفدر صاحب تھے جو کہ شاید ابھی تک کنوارے ھی تھے اور شہری بابو ھونے کی وجہ سے کافی بن ٹھن کر رھتے تھے

ہماری کلاس میں ایک لڑکا صغیر پڑھتا تھا اسکی امی آنٹی فرحت سکول آئی اور ماسٹر جی کو سلام کیا تب ماسٹر جی نے مجھے آواز دی کی یاسر جاو کمرے سے کرسی لے کر آو میں بھاگا بھاگا گیا اور کمرے سے ایک کرسی اٹھا کر لے آیا جس پر آنٹی فرحت بیٹھ گئی دوستو آنٹی فرحت کا تعارف کرواتا چلوں،،

آنٹی فرحت کا خاوند ایک حادثے میں فوت ھوگیا تھا اور انکا ایک ھی بیٹا تھا انکے شوہر کی وفات کے بعد آنٹی فرحت کی امی انکو اپنے پاس ہمارے گاوں ھی لے آئی تھی
آنٹی فرحت کافی شریف اور پردہ دار عورت تھی انہوں نے بڑی سی چادر سے اپنا آپ ڈھانپ رکھا تھا اور چادر سے ھی چہرے پر نقاب کیا ھوا تھا نقاب سے ان کی بڑی بڑی خوبصورت آنکھیں ھی نظر آرھی تھی اور انکی آنکھیں ھی انکے باقی حسن کی تعریف کے لیے کافی تھی جس کی آنکھیں ھی ایسی ھوں کہ جو بھی انکو دیکھے تو بس اس جھیل میں ایسا ڈوبے کہ کسی اور چیز کا اسے ھوش نہ رھے انٹی فرحت کا قد پانچ فٹ سات انچ تھا اور باقی کا فگر آگے چل کر بتاوں گا

انٹی فرحت آہستہ آہستہ ماسٹر جی سے پتہ نھی کیا باتیں کررھی تھی میں نے غور کیا کہ ماسٹر جی آنٹی فرحت کے ساتھ کافی فری ھونے کی کوشش کررہے ہیں اور ان سے بات کرتے ھوے اپنے منہ کے بڑے سٹائل بنا رھے ہیں تب ماسٹر جی نے صغیر کو آواز دی کے اپنا دستہ لے کر آے صغیر سر جھکائے اپنا دستہ لیے ماسٹر جی اور انٹی فرحت کے پاس جا پہنچا ماسٹر جی نے دستہ کھولا اور کچھ ورق پلٹنے کے بعد دستہ انٹی فرحت کی طرف بڑھا دیا آنٹی فرحت نے دستہ دیکھا اور پھر شرمندہ سی ھوکر اپنے بیٹے کو گھورنے لگ گئی تب ماسٹر جی نے مجھے آواز دی کہ یاسر ادھر آو میں ذرہ آفس میں جا رھا ھوں تم کلاس کا دھیان رکھو
 
  • Like
Reactions: Bahzad ul Hassan

Rehan Q

New Member
19
10
19
Update no 3..?????

کوئی بچہ شرارت نہ کرے،، دوستو میں کلاس میں سب سے لائق تھا اور میرا قد بھی تقریباً سب بچوں سے بڑھا تھا اس لیے میں کلاس میں سب سے آگے بیٹھتا تھا اور ماسٹر جی نے مجھے کلاس کا مانیٹر بھی بنا رکھا تھا اور میرے ساتھ عظمی بیٹھی ھوتی تھی ماسٹر جی مجھے سمجھا کر اٹھے اور آنٹی فرحت اور انکے بیٹے کو کمرے میں بنے آفس کی طرف آنے کا کہا اور خود آفس کی طرف چل پڑے اور انکے جاتے ھی انٹی فرحت کرسی سے اٹھی تو پیچھے سے چادر سمیت قمیض انکی گانڈ میں پھنسی ھوئی تھی جسکو انہوں نے بڑی ادا سے باہر نکالا اور اپنے بیٹے کا ھاتھ پکڑ کر ماسٹر جی کے پیچھے پیچھے چل پڑی
اور میں کلاس کی طرف منہ کرکے کھڑا ھوگیا اب میرا منہ کمروں کی طرف تھا جب کہ ساری کلاس کی پیٹھ کمروں کی طرف تھی کلاس کمروں کی مخلاف سمت بیٹھتی تھی
کچھ ھی دیر بعد مجھے صغیر کمرے سے نکلتا ھوا نظر آیا اور آکر میرے پاس سے گزرنے لگا تو میں نے اسے پوچھا سنا خوب کلاس لگی ماسٹر جی اور آنٹی جی سے تو شرمندہ سا ھوکر جا کر کلاس میں بیٹھ گیا تقریباً دس پندرہ منٹ کے بعد مجھے پیشاب آگیا میں نے عظمی کو اپنی جگہ کھڑا کیا اور کمروں کے پیچھے بنے ھوے صرف نام کے واش روم کی طرف چل پڑا
دوستو سکول میں دو ھی کمرے تھے ایک کمرے کو تو جب سے میں نے دیکھا تالا ھی لگا ھوا تھا جبکہ دوسرے آدھے کمرے میں پہلے آفس بنا ھوا تھا جس میں ایک میز اور دو تین کرسیاں پڑی تھی جب کے کمرے کے دوسرے حصے میں ایک الماری لگا کر پارٹیشن کی گئی تھی اور اس کے پیچھے. دو چارپایاں پڑی تھی جن پر اکثر ماسٹر جی آرام کرنے کے لیے لیٹ جاتے تھے اور الماری کے سائڈ سے ایک تین فٹ کی جگہ رکھی تھیجس کے آگے دیوار اور الماری میں کیل ٹھونک کر رسی کے ساتھ پردہ لٹکایا ھوا تھا میں پیشاب کر کے واپس جانے کے لیے کمرے کے پیچھے بنی ہوئی کھڑکی کے پاس سے گزرنے لگا تو مجھے آنٹی فرحت کی آواز سنائی دی جو ماسٹر جی کو کہہ رھی تھی
کہ ماسٹر جی نہ کرو تمہیں **** کا واسطہ مجھے جانے دو میں ایسی نھی ھوں مگر ماسٹر جی اسے تسلیاں دے رھے تھے کہ کچھ نھی ھوتا بس دو منٹ کی بات ھے کسی کو پتہ نھی چلے گا پھر آنٹی فرحت کی آواز آئی کہ نھی ماسٹر جی مجھے جانے دو کسی نے دیکھ لیا تو میری پورے گاوں میں بدنامی ھوجاے گی میں نے جلدی سے کھڑکی میں جھانکنے کے لیے اوپر کی طرف جمپ لگایا مگر کھڑکی میرے قد سے اونچی تھی اس لیے میں اندر دیکھنے میں ناکام رھا،
اچانک آنٹی فرحت کی چیخ سنائی دی میں چیخ سن کر گبھرا گیا اور جلدی سے دبے پاوں کمرے کے دروازے کی طرف دوڑا میں نے دروازے کو آہستہ سے کھولا کیوں کہ مجھے یہ کنفرم ھوگیا تھا کہ ماسٹر جی دفتر والے حصہ میں نھی ہیں بلکہ دفتر کے پچھلے حصہ میں آنٹی فرحت کو لے گئے ہیں مگر پھر بھی میں نے ڈرتے ڈرتے بڑی احتیاط سے دروازہ کھول کر اندر جھانکا تو میرا خیال بلکل درست نکلا دفتر واقعی ھی خالی تھا میں آہستہ سے دبے پاوں پنجوں پر چلتا ھوا کمرے میں داخل ھوا اور آہستہ سے دروازہ بند کر دیا اور پردے کے پاس جا پہنچا میں نے جب تھوڑا سا پردہ ھٹا کر اندر جھانکا تو میرے تو پاوں تلے سے زمیں نکل گئی اندر کا منظر ھی میری سوچ کے برعکس تھا
 
  • Like
Reactions: Bahzad ul Hassan

K S Lover

Well-Known Member
3,329
6,058
158
Nice
 

brego4

Well-Known Member
2,850
11,104
158
arey yaar ye urdu mein story likh di ab hum isko pade kaise ?:bounce:
 

Rehan Q

New Member
19
10
19
arey yaar ye urdu mein story likh di ab hum isko pade kaise ?:bounce:
Translate kar k parho dear
 

Rehan Q

New Member
19
10
19
Update... No.. 4...???
اندر کا سین دیکھ کر تو میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے میں تو یہ سوچ کر اندر آیا تھا کہ پتہ نھی ماسٹر جی اور فرحت آنٹی کی لڑائی ھو رھی اور ماسٹر جی نے فرحت آنٹی کو مارا ھے جس وجہ سے فرحت آنٹی کی چیخ نکلی تھی مگر یہاں تو ساری فلم ھی الٹ تھی میں آنکھیں پھاڑے اندر دیکھنے لگ گیا کہ ماسٹر جی نے فرحت آنٹی کو جپھی ڈالی ھوئی تھی اور ماسٹر جی فرحت آنٹی کے ہونٹوں میں ہونٹ ڈال کر چوس رھے تھے اور آنٹی فرحت کی آگے سے قمیض اوپر تھی اور انکے دونوں بڑے بڑے گول مٹول چٹے سفید چھتیس سائز کے ممے بریزئیر سے آزاد تھے اور ماسٹر جی کا ایک ھاتھ آنٹی فرحت کے ایک مُمے پر تھا اور دوسرا ھاتھ آنٹی فرحت کی بُنڈ پر رکھ کر اوپر نیچے پھیر رھے تھے ۔انٹی فرحت کو بھی شاید مزہ آرھا تھا کیوں کہ آنٹی فرحت نے اپنا ایک ہاتھ ماسٹر جی کی گردن پر رکھا ھوا تھا اور اپنی انگلیوں کو انکی گردن کے گرد پھیرتی کبھی اوپر سر کہ بالوں پر لے جاتی دوستو میں نے زندگی میں پہلی دفعہ کسی عورت کو ننگا دیکھا تھا اور وہ بھی اس عورت کو جس کے بارے میں میں سوچ بھی نھی سکتا کہ یہ بھی ایسی گندی حرکت کرسکتی ھے اور وہ بھی کسی غیر مرد کے ساتھ اس حال میں میرا تو دیکھ کر برا حال ھورھا تھا ماتھے پر پسینہ اور نیچے سے میری ٹانگیں کانپ رھی تھی ادھر ماسٹر جی اور آنٹی فرحت دنیا سے بے خبر اپنی مستی میں گم تھے

ماسٹر جی مسلسل آنٹی فرحت کے ہونٹ چوس رھے تھے پھر ماسٹر جی نے آنٹی فرحت کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ علیحدہ کیے تو میں نے دیکھا کہ آنٹی فرحت کی آنکھیں بند تھی اور وہ کسی سرور میں کھوئی ھوئی تھی اور منہ چھت کی طرف تھا اب ماسٹر جی نے آنٹی فرحت کی گالوں کو چومنا شروع کردیا ماسٹر جی کبھی آنٹی فرحت کے گالوں کو چومتے کبھی زبان پھیرتے تو کبھی ان کے گال کو منہ میں بھر کر چوسنے لگ جاتے آنٹی فرحت کا رنگ تو پہلے ھی چٹا سفید تھا اب بلکل ٹماٹر کی طرح سرخ ھوچکا تھا ماسٹر جی آنٹی فرحت کے گالوں کو چومتے چومتے انکے گلے پر زبان پھیرنے لگ گئے ماسٹر جی جیسے ھی گلے سے زبان پھیر کر اوپر ٹھوڑی کی طرف لے کر جاتے تو آنٹی فرحت کو پتہ نھی کیا ھوتا وہ ایک دم پنجوں کے بل کھڑی ھوجاتی اور بند آنکھوں سے چھت کی طرف منہ کیے ایک لمبی سسکاری لیتے ھوے سسسسسیییی کرکے ماسٹر جی کے ساتھ مزید چمٹ جاتی
ماسٹر جی نے اب زبان کا رخ آنٹی فرحت کے کان کی لو کی طرف کیا جیسے جیسے ماسٹر جی کی زبان آنٹی فرحت کے کان کی لو سے ھوتی ھوئی کان کے پیچھے کی طرف جاتی تو آنٹی فرحت ایک جھرجھری سی لیتی اور اپنی پھدی والے حصہ کو ماسٹر جی کے لن والے حصہ کے ساتھ رگڑتی اور منہ سے عجیب عجیب سی آوازیں نکالتی ماسٹر جی بھی آنٹی فرحت کو پاگل کرنے کے چکر میں تھے ماسٹر جی تین چار، منٹ تک ایسے ھی کبھی گالوں پر کبھی گلے پر کبھی کان کے پیچھے زبان پھیرتے رھے پھر ماسٹر جی تھوڑا نیچے ھوے اور آنٹی فرحت کے بڑے سے ممے پر لگے براون نپل پر زبان پھیرنے لگ گئے آنٹی فرحت کے ممے کا نپل کافی موٹا اور ایک دم اکڑا ھوا تھا ماسٹر جی مسلسل اپنی زبان کو نپل پر پھیرے جا رھے تھے اور کبھی نپل کے گرد براون دائرے پر زبان گھماتے انٹی فرحت مزے سے سسسییی افففففف اممممم کری جارھی تھی
ماسٹر جی اب اپنا ایک ھاتھ انٹی فرحت کے پیٹ پر پھیر رھے تھے اور کبھی اپنی انگلی انکی ناف کے سوارخ میں پھیرنے لگ جاتے اب ماسٹر جی نے ایک ممے کو اپنے منہ میں بھر لیا تھا اور زور زور سے چوسی جارھے تھی انکی تھوک سے سارا مما گیلا ھو گیا تھا ماسٹر جی اپنے ھاتھ کو بھی آہستہ آہستہ نیچے پھدی کے قریب لے جا رھے تھے
آنٹی فرحت کی حالت دیکھنے والی تھی انکا ھاتھ مسلسل ماسٹر جی کے سر کے بالوں کو مٹھی میں لیے ھوے تھا کبھی بالوں کو مٹھی میں بھر لیتی کبھی انگلیوں کو بالوں میں پھیرنے لگ جاتی ماسٹر جی نے اپنا ھاتھ آنٹی فرحت کی شلوار کے نالے پر رکھ لیا اور انگلیوں سے نالے کا سرا تلاش کرنے لگ گئے آنٹی فرحت کو شاید محسوس ھوگیا تھا کہ ماسٹر جی اب اگلے کس مرحلے میں داخل ھونے کی کوشش میں ہیں اس لیے انہوں نے اپنا ایک ھاتھ جلدی سے ماسٹر جی کے ھاتھ پر رکھ کر زور سے دبا دیا ماسٹر جی نے اپنی آنکھیں اوپر کر کے انٹی فرحت کی آنکھوں میں دیکھا تو آنٹی فرحت نے نھی میں سر ہلایا جیسے کہنا چاہ رھی ھو کہ بس اس سے آگے کچھ نھی کرنا
مگر
ماسٹر وی کسے چنگے استاد داچھنڈیا ھویا سی ماسٹر جی نے بڑے پیار اے اپنا ھاتھ چھڑوایا جیسے اپنا ارادہ بدل لیا ھو مگر ماسٹر جی نے ھاتھ چھڑواتے ہوے شلوار کے نالے کے سرے کو اپنی انگلیوں کے درمیان پھنسا لیا تھا اور ایک جھٹکے سے نالا کھینچا تو آنٹی فرحت کی شلوار کا نالا کھل گیا اس سے پہلے کہ انٹی فرحت کچھ سمجھتی انکی
شلوار انکے پاوں میں پڑی تھی میری آنکھوں کے سامنے اب آنٹی فرحت کی گوری گوری موٹی بھری بھری ننگی ٹانگیں اور اوپر پٹوں کے درمیاں گولڈن رنگ کے بالوں میں ڈھکی انکی پھولی ھوی پُھدی تھی یہ سین دیکھتے ھی میرا ھاتھ خود ھی اپنے لن پر چلا گیا جو پتہ نھی کب سے کھڑا تھا اور لن پر ھاتھ جاتے ھی انگلیوں نے لن کو مسلنا شروع کردیا ،،ادھر ماسٹر جی نے بھی موقعہ ضائع کئے بغیر جلدی سے اپنا ایک ھاتھ آنٹی فرحت کی پھدی پر رکھ دیا اور ھاتھ کی درمیانی انگلی کو پھدی کے اوپر نیچے کرنے لگ گیا انٹی فرحت نے جلدی سے اپنا ھاتھ ماسٹر جی کے ھاتھ کے اوپر رکھ کر ھاتھ کو ہٹانے لگ گئی مگر ماسٹر جی کا داو کام کر گیا تھا جلد ھی آنٹی فرحت ماسٹر جی کا ھاتھ ہٹانے کے بجاے انکے ھاتھ کو اپنے ھاتھ سے پھدی پر دبانے لگ گئی اب آنٹی فرحت اپنی ٹانگوں کو مزید کھول کر ماسٹر جی کے ھاتھ کو آگے پیچھے جانے کا راستہ دے رھی تھی ماسٹر جی نے اپنی ایک انگلی جیسے ھی پھدی کے اندر کی آنٹی فرحت کے منہ سے ایک لمبی سی سسسسسسسییی نکلی اور ساتھ ھی ماسٹر جی کا سر پکڑ کر اوپر کی طرف لے گئی اور دونوں کے ہونٹ پھر ایک دوسرے کے ساتھ مل گئے اب ماسٹر جی سے ذیادہ جوش و جنون آنٹی فرحت میں تھا وہ پاگلوں کی طرح ماسٹر جی کے ہونٹ چوس رھی تھی ادھر ماسٹر کی انگلیاں سپیڈ سے پھدی کے اندر باہرھو رھی تھی
اچانک آنٹی فرحت کی آنکھیں نیم بند ھونے لگ گئی اور منہ سے ھاےےےےےے امممممم اففففففف میں گئی میں گئیییییی کی آوازیں آنے لگ گئی ماسٹر جی نے جب یہ اوازیں سنی تو اپنے ھاتھ کی سپیڈ اور تیز کردی اچانک آنٹی فرحت نے اپنی دونوں ٹانگوں کو ماسٹر جی کے ھاتھ سمیت ذور سے آپس میں بھینچ لیا اور نیچے کی طرف جھکتی گئی اتنا جھکتی گئی کہ نیچے ھی پاوں کے بل پیشاب کرنے کے انداز میں بیٹھ گئی ماسٹر جی بھی ھاتھ کے پھنسے ھونے کی وجہ سے ساتھ ساتھ نیچے ھوتے گئے آنٹی فرحت نے اپنے گٹنوں پر دونوں بازو رکھے اور بازوں پر سر رکھ کر بیٹھی رھی
کچھ دیر ایسے ھی بیٹھنے کے بعد ماسٹر جی نے آنٹی فرحت کو کھڑا کیا تو آنٹی فرحت نے اٹھتے ھوے ساتھ ھی اپنی شلوار اوپر کرلی اور ذور سے ماسٹر جی کو پیچھے کی طرف دھکا دیا اور جلدی سے اپنی شلوار کا نالا باندھ لیا ماسٹر جی حیران پریشان آنٹی فرحت کا منہ دیکھے جارھے تھے ماسٹر جی نے پھر آنٹی فرحت کو بازوں سے پکڑ کر کہا فرحت کیا ھوا تو آنٹی فرحت نے کہا چھوڑو مجھے خبردار میرے قریب مت آنا ماسٹر جی کے دماغ پر تو پھدی سوار تھی انکی منی تو انکے دماغ کو چڑ گئی تھی چڑتی بھی کیسے نہ بیچارا ایک گھنٹے سے خوار ھورھا تھا ماسٹر جی جب دیکھا کہ پھدی ھاتھ سے نکل رھی ھے تو جلدی سی آنٹی فرحت کو پیچھے سے جپھی ڈال لی اور آنٹی فرحت کو گھما انکا منہ پردے کی طرف کردیا آنٹی فرحت کی نظر پردے پر جیسے ھی پڑیمیرے تے ٹٹے ای تاں چڑ گئے.
 

Rehan Q

New Member
19
10
19
Update... No.. 5....???
مجھے لگا کہ آنٹی فرحت نے مجھے دیکھ لیا ھے جبکہ میں بلکل تھوڑا سا پردہ سرکا کہ اندر دیکھ رھا تھا
میں بنا کچھ سوچے سمجھے وھاں سے بھاگا اور سیدھا کلاس کی طرف آگیا مجھے کلاس کی طرف آتے دیکھ عظمی بھی میری طرف متوجہ ھوگئی میں پسینے سے شرابور تھا اور میرے دل کی دھڑکن ٹرین کی سپیڈ جتنی تیز چل رھی تھی میں اس قدر گبھرایا اور ڈرا ھوا تھا کہ میں نے یہ بھی پروا نھی کی کہ عظمی مجھے غور سے دیکھ رھی ھے اور میں عظمی کو نظر انداز کرتا ھوا اسکے پاس سے گزر کر اپنی جگہ پر جاکر بیٹھ گیا

عظمی کو بھی میری حالت کا اندازہ ھوگیا تھا وہ گبھرائی ھوئی میرے پاس آکر بیٹھ گئی اور مجھے کندھے سے پکڑ کر بولی یاسر کیا ھوا اتنی دیر کہاں لگا دی اتنے گبھراے ھوے کیوں ھو کیا ھوا سب خیریت تو ھے ناں عظمی نے ایک ھی سانس میں کئی سوال کردئے یہ تو شکر ھے کہ اس نے یہ سب آہستہ سے پوچھا تھا ورنہ پیچھے بیٹھے سب بچے سن لیتے میں نے کچھ دیر گبھراے ھوے ھی عظمی کو دیکھتا رھا اسے بتانے کو میرے پاس کوئی الفاظ نھی تھے مجھے ایسے اپنی طرف دیکھتے عظمی نے مجھے بازوں سے پکڑے پھر جنجھوڑا یاسر بولو کیا سوچ رھے ھو میں ایک دم سکتے سے باہر آیا اور اپنی انگلی اپنےنے نہ پر رکھ کر اسے چپ رھنے کا اشارہ کیا اور آہستہ سے اسے کہا کہ گھر جاتے ھوے بتاوں گا ابھی چپ رھو وہ میری حالت دیکھ کر چپ کر کے بیٹھ گئی میرا دھیان اب کمرے کے دروازے کی طرف ھی تھا اور دل میں کئی وسوسے آرھے تھے کہ پتہ نھی میرے ساتھ اب کیا ھوگا آنٹی فرحت نے اگر مجھے دیکھ لیا ھے تو ماسٹر جی کو ضرور بتاے گی یاسر پتر توں تے گیا ھن ھن تیری خیر نئی ماسٹر جی نے تو مار مار میرا برا حال کردینا ھے اور گھر میرے گھر شکایت پہنچ گئی تو پھر ابو نے الگ سے مارنا ھے

میری اپنی قیاس آرائیاں جاری تھی تو میں ماسٹر جی کو کمرے سے باہر نکل کر تیز تیز قدموں سے کلاس کی طرف آتے دیکھا ماسٹر جی کو آتے دیکھ کر میرا تو گلا خشک ھوگیا بیٹھے ھی میرا جسم کانپ رھا تھا ماسٹر جی کلاس میں آکر کرسی پر بیٹھ گئے انکے چہرے پر غصہ صاف صاف جھلک رھا تھا اب مجھے نھی معلوم تھا کہ یہ غصہ میرے دیکھنے کا ھے یا پھدی ملنے کی ناکامی کا تھا خیر ماسٹر جی نے بڑی کرخت آواز میں کہا یاسررررر میں ایسے اٹھ کر کھڑا ہوا جیسے میرے نیچے سے کسی سوئی چبھوئی ھو


میں نے اٹھتے ھی کہا یس سر


ماسٹر جی بولے


تمہیں کہا تھا سب بچوں کے گھر کا کام چیک کرو تم نے کیا


میں حیران پریشان کھڑا تھا مجھے اچھی طرح یاد تھا کہ ماسٹر جی نے صرف کلاس کا دھیان رکھنے کا کہا تھا


میں نے کہا نھی سر آپ نے مجھے صرف دھیان رکھنے کا کہا تھا


تو ماسٹر جی غصہ سے بولے الو کے پٹھے اگر نھی کہا تھا تو کرلیتے تمہیں مانیٹر کس لیے بنایا ھے


بیٹھ جاو
میں جلدی سے بیٹھ گیا


اور دل میں ماسٹر جی کو برا بھلا کہنے لگ گیا


کہ گانڈو تینوں پھدی نئی ملی ایدے وچ وی میرا ای قصور اے


پھر ماسٹر جی نے سب بچوں کو ہوم ورک چیک کروانے کا کہا اور باری باری سب کا ہوم ورک چیک کرنے لگ گئے


ماسٹر جی نے پھدی کی ناکامی کا سارا غصہ ان بچوں پر نکالا جنہوں نے ہوم ورک نھی کیا ھوا تھا


مجھے کچھ تسلی ھوگئی تھی کہ ماسٹر جی کو نھی پتہ چلا کہ میں بھی انکی پھدی لینے کی خواری کو دیکھ رھا تھا


چھٹی سے گھر واپس آرھے تھے تو نسرین عظمی اور محلے کے کچھ بچے بھی ہمارے ساتھ ساتھ ھی تھے مجھے عظمی کے چہرے پر کافی بےچینی سی نظر آرھی تھی


ہم سب اکٹھے ھی چل رھے تھے کہ اچانک عظمی نے ھاتھ میں پکڑا دستہ نیچے پھینک دیا اور ظاہر ایسے کروایا جیسے خود ھی اسکے ھاتھ سے نیچے گرا ھو اور عظمی نیچے بیٹھ کر دستہ اٹھانے لگ گئی میں بھی اس کے پاس کھڑا ھوگیا جبکہ نسرین سمیت باقی بچے آگے گزر گئے عظمی نے جب دیکھا کہ ساتھ والے بچے اب کچھ آگے چلے گئے ہیں تو وہ اٹھ کھڑی ھوئی اور ہم دونوں گھر کی طرف چلنے لگ گئے تو عظمی نے مجھ سے کہا اب بتاو کیا ھوا تھا


میں نے کہا یار بتا دوں گا صبر تو کرو تو عظمی بولی ابھی بتا دو کیا مسئلہ ھے تو میں نے کہا یار یہ لمبی بات ھے ہمارا گھر آنے والا ھے اتنی جلدی کیسے بتا دوں تو عظمی بولی جلدی جلدی بتاو کہ ھوا کیا تھا جو اتنا ڈرے ھوے تھے تو میں نے کہا یار وہ ماسٹر جی اور آنٹی فرحت،،،،،،،


یہ کہہ کر میں پھر چپ ھوگیا اتنے میں ھم اپنی گلی کا موڑ مڑ کر گلی میں داخل ھوچکے تھے اور کچھ آگے نسرین اکیلی کھڑی ھمارا انتظار کررھی تھی نسرین کو دیکھ کر میں نے شکر ادا کیا کہ فلحال جان چھوٹی عظمی نے مجھے پھر کہنی ماری بولو کیا ماسٹر جی اور آنٹی فرحت تو میں نے بھی اسے کہنی مارتے ھوے سامنے نسرین کی طرف اشارہ کرتے ھوے خاموش کرادیا اور پھر بتاوں گا کہہ کر ٹال دیا اتنے میں ہم نسرین کے پاس پہنچ گئے تو نسرین بولی


تواڈے دوناں دیا لتاں ٹُٹیاں ھویاں نے

لتاں کڑیس کڑیس کے ٹُردے او


میں نے شوخی سے کہا


تینوں جے پر لگے ھوے نے جیڑا اوڈ کے اگے اگے پہنچ جانی اے


تو نسرین پھوں پھوں کرتی چل پڑی پہلے میرا گھر آیا میں ان دونوں کو بات بات کرتا گھر داخل ھوگیا اور امی جان جو سلام کیا اور کمرے کی طرف چل دیا سکول بیگ رکھا اور دھڑم سے چارپائی پر گر گیا جیسے بڑی محنت مزدوری کر کے آیا ھوں


لیٹتے ھی آنکھیں بند کرلی اور ماسٹر جی اور فرحت کے بارے میں سوچنے لگ گیا





دوستو فرحت کو اب میں انٹی نھی بولوں گا سالی اب اس لائق ھی نھی رھی،،،،


میری آنکھوں کے سامنے فرحت کے گورے گورے خربوزے جتنے ممے آرھے تھے کیا گول مٹول نرم سے چٹے سفید دودہ سے بھرے پیالے تھے جسکو ماسٹر منہ لگا کر مزے لے لے کر پی رھا تھا کیا گورا پیٹ جو بلکل اندر کی طرف تھا کیا کمال کی گوری چٹی ٹانگیں


کیا موٹے گول گول پٹ تھے اور انکے درمیاں گولڈن پھدی واہ کیا بات تھی ماسٹر گانڈو تو بڑا خوش قسمت نکلا


یہ سوچتے سوچتے مجھے نھی پتہ چلا کب میں اپنے لن کو پکڑ کر مسلی جا رھا ھوں اور لن ساب بھی ٹنا ٹن کھڑے تھے


کہ اچانک امی جان کی آواز نے مجھے خیالوں سے لا باھر پھینکا


یاسررررر
 
  • Like
Reactions: Bahzad ul Hassan

Rehan Q

New Member
19
10
19
Update no 6...????

امی کی آواز سنتے ھی میں ہڑبڑا کر اٹھ کر بیٹھ گیا اور اونچی آواز میں بولا جی امی جی


تو امی کی برآمدے سے پھر آواز آئی پتر آکر روٹی کھا لو


میں جلدی سے اٹھا اور باہر برامدے میں آکر امی کے پاس بیٹھ گیا جو چولہے پر روٹیاں پکا رھی تھی


روٹی کھا کر میں پھر کمرے میں آگیا اور ہوم ورک کرنے لگ گیا ہوم ورک کر کے تھوڑی دیر بعد میں پھر لیٹ گیا اور پتہ نھی کب میری آنکھ لگی جب میں اٹھا تو اس وقت چار بج رھے تھے


امی نے بتایا کہ دو دفعہ عظمی تمہیں بلانے آئی تھی کہ امی یاسر کو بلا رھی ھے


تبھی میری بہن نازی جسکا اصل نام نازیہ تھا پیار سے اسے ناشی کہتے تھے وہ بولی ان لوگوں نے اسے نوکر سمجھا ھوا ھے جب بھی کوئی کام ھوتا ھے تو منہ اٹھا کر اسے بلانے آجاتے ہیں اور یہ نواب زادہ گھر میں تو نواب بن کر رھتا ھے اور ان کے گھر نوکری کر کے خوش ھے


امی نے میری بہن کو ڈانٹا کہ بکواس نہ کر فوزیہ اسے اپنا بیٹا سمجھتی ھے اور اپنی بیٹیوں سے بڑھ کر اسے پیار کرتی ھے اس لیے مان سے اسے کوئی باھر کا کام کہہ دیتی ھے اگر یہ انکا کوئی کام کربھی دیتا ھے تو تمہیں کیا تکلیف ھے


امی کی ڈانٹ سن کر نازی غصہ سے میری طرف دیکھتی باہر نکل گئی میں نے بھی اسے جاتے جاتے منہ چڑھا دیا اور باہر کو نکل گیا باہر گلی میں آتے ھی میں نے اپنا رخ سیدھا آنٹی فوزیہ کے گھر کی طرف کیا اور سیدھا انکے دروازے پر جا پہنچا جب میں اندر داخل ھوا تو انٹی فوزیہ کو سلام کیا اور ان سے اپنے سر پر پیار لیا


تو آنٹی بولی کھل گئی آنکھ میرے شہزادے کی تو میں نے کہا جی آنٹی مجھے امی نے بتایا تھا کہ عظمی دو دفعہ مجھے بلانے آئی تھی خیریت تو ھے کچھ منگوانا تھا تو آنٹی بولی


پتر کنک کے دانے شیدے کی چکی پر چھوڑ آ شام کو جاکر پھر لے آنا میں نے آنٹی کے حکم کی تعمیل کرتے ھوے کہا جی آنٹی جی ابھی چھوڑ آتا ہوں میں نے چاروں طرف نظر گھمائی تو مجھے عظمی اور نسرین نظر نھی آئیں میں نے انٹی سے ان دونوں کا پوچھا تو آنٹی نے بتایا کہ نسریں تو مَلکوں کے گھر ٹیویشن پڑھنے چلی گئی مگر عظمی اندر کمرے میں ہے دھونے والے کپڑے اکھٹے کر رھی ھے کل جمعہ ھے تو ان دونوں بہنوں کو سکول سے تو چھٹی ھوگی تو ہم نے کل نہر پر کپڑے دھونے جانا ھے


میں نے ھممم کر کے سر ہلایا اور انٹی سے گندم کا پوچھا تو آنٹی بولی پتر تم سائکل صحن میں نکالو اور میں کنک کا توڑا اٹھا کر لے آتی ہوں تم سے تو اٹھایا نھی جانا میں نے جلدی سے دیوار کے ساتھ لگی سائکل کو پکڑا اور اسے لے کر صحن میں باھر کے دروازے کی طرف منہ کر کے کھڑا ھوگیا آنٹی اتنی دیر میں گندم کا تھیلا اٹھا کر لے آئی آنٹی نے دوپٹہ نھی لیا ھوا تھا جیسے ھی انٹی گندم کا تھیلا سائکل کے فریم میں رکھنے کے لیے جھکی تو ان کے کھلے گلے سے دونوں مموں کا نظارا میرے سامنے تھا آنٹی فوزیہ کے ننگے ممے دیکھ کر ایکدم میری انکھوں کے سامنے فرحت کے گورے چٹے ممے آگئے اور میں ٹکٹکی باندھے آنٹی فوزیہ کے گلے میں جھانکی جا رھا تھا اور آنٹی فوزیہ میری گندی نظروں سے بے خبر اپنے دھیان گندم کے تھیلے کو سائکل کے فریم میں چین کے کور کے اوپر. سیٹ کر رھی تھی


جیسے ذور ذور سے تھیلے کو ادھر ادھر کرتی تو ویسے ھی آنٹی کے گورے گورے دودہ کے پیالے چھلکتے میں نددیدوں کی طرح آنٹی کے ممے دیکھی جارھا تھا ،





دوستو ایسا پہلے بھی ھوتا ھوگا مگر میں نے پہلے کبھی ایسا ریکٹ نھی کیا تھا تب میری معصومیت بچپنا اور سیکس سے ناآشنائی کی وجہ تھی اور یہ ھی وجہ تھی کہ آنٹی نے مجھے دیکھ کر کبھی بھی سر پر دوپٹہ یا سینے کو دوپٹے سے ڈھانپا نھی تھا جس حال میں بھی آنٹی فوزیہ بیٹھی ھوتی ویسے ھی رھتی انکی نظر میں


میں بچہ تھا معصوم تھا


مگر سالے ماسٹر کی کرتوت نے میرے اندر سیکس کی چنگاری بھر دی تھی اور میرے اندر کے مرد نے اپنی ایک آنکھ کھول لی تھی


آنٹی نے گندم کا تھیلا سہی کرکے رکھ دیا اور میں سائکل کو لے کر پیدل ھی گھر سے باہر نکل آیا سائکل کا ہنڈل بھی آگے سے ہل رھا تھا اور میں ڈگمگاتے ھوے چلا جارھا تھا کہ اچانک مجھے پیچھے سے عظمی کی آواز آئی جو مجھے رکنے کا کہہ رھی تھی میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو عظمی دوڑتی ھوئی آرھی تھی میں اسے دیکھ کر رک گیا
،، عظمی میرے پاس آکر رکی اور اپنی ہتھیلی کھول کر میرے آگے کردی اور بولی بُدھو پیسے تو لیتا جا میں نے اسکی ہتھیلی سے ایک روپیہ پکڑا اور اپنی قمیض کی اگلی جیب میں ڈال لیا اور پھر سے چل پڑا عظمی بھی میرے ساتھ ساتھ سائکل کو پیچھے سے پکڑے چلی آرھی تھی تو میں نے اسے کہا یار تم جاو میں دانے لے جاوں گا تو وہ بولی ذیادہ شوخا نہ بن اور کل والے واقعہ کا بتا کہ کیا ھوا تھا میں اسی لیے تمہارے پیچھے آئی ھوں


میں عظمی کی بات سن کر پریشان ھوگیا
میں گبھراے ہوے بولا یار کچھ بھی نھی ھے


تو عظمی نے غصہ سے کہا سیدھی طرح کہو کہ بتانا نھی چاھتے


میں نے کہا نھی یار ایسی بات نھی ھے


تو عظمی بولی


تو بتاو پھر


میں نے کہا یار تم لڑکی ھو میں تم سے گندی بات نھی کرسکتا اب کیسے تم سے گندی باتیں کروں،


تو عظمی ایک دم غصہ میں آگئی اور بولی،





میں تیری بوتھی نہ پن دیواں گی جے میرے نال گندی گل کیتی


تو میں نے کہا


دُرفٹے منہ تیرا


میں ماسٹر جی اور انٹی فرحت کی بات کررھا ھوں


تو وہ بولی تم بتاو نہ پھر کیا دیکھا تھا تم


تو میں نے کہا یار دفعہ کرو کوئی اور بات کرو


تو عظمی نے غصہ سے سائکل کو چھوڑا اور رک کر کھڑی ھوگئی اور مجھے گھورتے ھوے بولی


جا دفعہ ھو نئی تے نہ سئی مینوں اج توں بعد نی بُلائیں تیری میری کٹی اور یہ کہتے ھوے اپنی چیچی چھوٹی انگلی میری طرف کرتے ھوے واپس بھاگ گئی


دوستو اس وقت ہماری ناراضگی کٹی اور صلح پکی سے ھوا کرتی تھی


میں جلدی جلدی گندم چکی پر چھوڑ کر واپس آنٹی کے گھر آگیا اور دیکھا عظمی گھر میں نھی تھی تو میں نے آنٹی سے پوچھا تو آنٹی نے بتایا کہ وہ تو تمہیں پیسے دینے گئی تھی میں تو سمجھی کے تمہارے ساتھ ھی چلی گئی ھوگی


تو میں نے کہا آنٹی وہ تو اسی وقت واپس آگئی تھی


آنٹی بولی


فیر او وان (کھیت) وچ دفعہ ھوگئی ھونی اے


میں نے انٹی سے کہا میں دیکھ کر آتا ھو


تب تک شام ڈھلنے والی تھی


میں گلی کی نکڑ پر پینچا تو سامنے دیکھا عظمی سامنے کھیت کی پگڈنڈی پر بیٹھی ھوئی تھی اور کھیت میں کھیلتے ھوے بچوں کو دیکھ رھی تھی


میں نے سڑک کراس کی اور کھیت میں داخل ھوگیا مجھے اپنی طرف آتے دیکھ کر عظمی وھاں سے اٹھی اور کھیت کی دوسری طرف بنی پگڈنڈی کی طرف چل پڑی میں نے بھی اپنا رخ اسی طرف کردیا اور عظمی کے کچھ فاصلے پر اسکے پیچھے پیچھے چلتا ھوا اس کے سر پر جا پہنچا تب تک عظمی پگڈنڈی پر بیٹھ چکی تھی


میں بھی اس کے پاس جا کر بیٹھ گیا عظمی تھوڑا کھسک کر مجھے سے دور ھوکر بیٹھ گئی میں بھی کھسک کر اسکے اور قریب ھوگیا عظمی نے میری طرف غصے سے دیکھا اور بولی


کی تکلیف اے میرے پِچھے کیوں پیا ایں اپنی جگہ تے جا کہ بیٹھ


میں نے کہا اپنی جگہ پر ھی بیٹھا ھوں تمہاری گود میں تو نھی بیٹھا


تو عظمی بولی


جا دفعہ ھو جان چھڈ میری


میں نے کہا یار ناراض کس بات پر ھو کچھ باتیں ایسی بھی ھوتی ھیں جو لڑکیوں سے نھی کی جاتی


تم ایسے فضول میں منہ بنا کر بیٹھ گئی ھو


تو عظمی بولی


میں تیرے کولوں کش پُچھیا اے جیڑا توں مینوں نئی دسنا جا اپنا کم کر جا کہ





عظمی کا رویہ مجھ سے برداشت نہ ھوا میں نے اسکا بازو پکڑا اور رونے والے انداز سے کہا


چل آ تینوں دسدا آں


تو عظمی نے غصہ سے اپنا بازو مجھ سے چھڑوایا اور بڑے غصیلے انداز سے بولی
 
  • Like
Reactions: Bahzad ul Hassan
Top