- 19
- 10
- 19
Update no 1....???
دوستو،،، میں سیالکوٹ کے کہ ایک نواحی گاوں کے متوسط گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں یہ سٹوری ھے ان دنوں کی جب مکاں کچے اور لوگ سچے ہوا کرتے تھے
جب گاوں کے اٹھارہ سال تک کے لڑکے اور لڑکیاں سیکس نام کی کسی چیز کے واقف نھی ھوتے تھے
اسی لیے سب ایک دوسرے کے گھروں میں بلاجھجک چلے جاتے تھے میری عمر اس تقریباً 14 /15سال کے لگ بھگ ھوگی ہمارے گاوں میں صرف ایک ھی پرائمری سکول تھا جس میں صرف دو کمرے ھوتے تھے اور اس سکول میں دو ماسٹر جی پڑھاتے تھے ایک ماسٹر جی تقریباً چالیس سال کا تھا جس کا نام جمال دین تھا اور ایک ماسٹر صفدر صاحب تھے جو تقریباً اٹھائیس تیس سال کے لگ بھگ ھوں گے جو شہر سے پڑھانے آتے تھے سکول میں ایک کلاس میں پہلی سے تیسری کلاس کے بچے پڑھتے تھے اور دوسری کلاس میں چوتھی اور پانچویں کلاس کے بچے پڑھتے تھے
میں اس وقت چوتھی کلاس میں اچھے نمبروں سے پاس ھوا تھا اور میرے ابو جان مجھے شہر کے سکول میں داخل کروانے کے بارے میں امی جان سے بحث کررھے تھے
شہر کہ سکول کا سن کر میرے تو پاوں زمین پر نھی لگ رھے تھے
اور دل میں طرح طرح کے لڈو پھوٹ رھے تھے بڑی بڑی عمارتیں بڑی بڑی گاڑیوں اور شہر کی رونق کے خیالوں میں ڈوبا میں امی جان اور ابو جان کے بحث مباحثہ کو سن رھا تھا
امی جان میرے شہر جانے سے منع کررھی تھی کہ ابھی یاسر بچہ ھے چھوٹا ھے ناسمجھ ھے کیسے شہر جاے گا امی ابو طرح طرح کی دلیلیں دے کر منع کررھی تھی کہ یاسر کو ایک سال اور پڑھنے دو پھر کچھ سمجھدار ھو جاے گا تو چلا جاے گا آخر کار کافی دیر کی بحث مباحثے کے بعد جیت امی جان کی ھوئی میں نے جب اپنے ارمانوں پر پانی پھرتے دیکھا تو رونے والا منہ بنا کر باہر نکل کر آنٹی فوزیہ کے گھر کی طرف چل پڑا جو ہماری ھی گلی میں رہتی تھی انکا گھر ھمارے گھر سے پانچ چھ گھر چھوڑ کر آتا تھا میں آنٹی فوزیہ کے گھر داخل ھوا اور اونچی آواز میں سلام کیا آنٹی فوزیہ بہت ھی نرم دل اور پیار کرنے والی خاتون تھی انکا قد پانچ فٹ چھ انچ اور چھاتی چھتیس انچ کی اور پیٹ بلکل اندر کی طرف تھا اور ہلکی سی گانڈ باہر کو نکلی ھوئی تھی رنگ انکا سفید تھا دوستو یہ سب مجھے اس وقت نھی پتہ تھا بلکہ بعد میں پتہ چلا آپکو پہلے بتانا ضروری سمجھا اس لیے بتا دیا،،
میں نے آنٹی فوزیہ کو دیکھا جو صحن میں لگے بیری کے درخت کے نیچے چارپائی پر بیٹھی سبزی بنا رھی تھی میں چلتا ھوا آنٹی فوزیہ کے پاس پہنچ گیا آنٹی فوزیہ نے مجھے دیکھ کر میرے سر پر پیار دیا اور کہا آگیا میرا شزادہ لگتا ھے آج گھر سے مار پڑی ھے میں منہ لٹکاے آنٹی فوزیہ کے پاس بیٹھ گیا آنٹی فوزیہ بولی کیا ھوا ایسے کیوں رونے والا منہ بنا رکھا ھے میں نے آنٹی فوزیہ کو ساری روداد سنا دی
آنٹی فوزیہ نے مجھے اپنے کندھے کے ساتھ لگا لیا اور مجھے پیار سے سمجھانے لگ گئی کہ دیکھ پُتر تیری امی کو تجھ سے پیار ھے تو ھی تجھے شہر جانے سے روک رھی ھے اور تم لوگوں کے حلات بھی ابھی ایسے ہیں کہ شہر جانے کے لیے ٹانگے کا کرایہ نھی دے سکھی میںنے آنٹی کی بات کاٹتے ھوے کہا وہ گاما تانگے والا بچوں کو شہر لے کر تو جاتا ھے تو آنٹی فوزیہ بولی دیکھ پُتر وہ زمینداروں کے بچے ہیں وہ لوگ تانگے کا کرایہ دے سکتے ہیں تم ایک سال اور پڑھ لو پھر پھر عظمی اور نسرین(آنٹی فوزیہ کی بیٹیاں) بھی شہر جانے لگ جائیں گی تو تم بھی اپنی بہنوں کے ساتھ پیدل ہی نمبرداروں کی زمین کے بنے بنے نہر کی طرف سے چلے جایا کرنا ابھی دل لگا کر پڑھو میں جیسے تمہارے امی ابو کہتے ہیں انکی بات مانو میں نے اچھے بچوں کی طرح ہاں میں سر ہلایا تو آنٹی فوزیہ نے پیار سے میرے سر پر ہاتھ رکھ کر اپنے ساتھ لگا لیا اور شاباش دیتے ھوے بولی یہ ھوئی نہ بات،، میں نے آنٹی فوزیہ سے پوچھا کہ عظمی کدھر ھے تو آنٹی بولی وہ کمرے میں موڈ بنا کر بیٹھی ھے نسرین تو ٹیوشن چلی گئی ھے مگر یہ ایسی ضدی لڑکی ھے کہ میرا کہنا ھی نھی مانتی میں یہ سن کر انٹی کے پاس سے اٹھا اور عظمی کے پاس چلا گیا میں نے دیکھا کہ عظمی سر جھکائے کرسی پر بیٹھی ھوئی ھے،
میں نے جاتے ھی عظمی کو چھیڑنے لگ گیا کہ چنگی مار پئی اے نہ آ ھا آھا تو عظمی نے جوتا اٹھایا اور میرے پیچھے بھاگ پڑی میں آگے آگے بھاگتا کمرے سے باہر آگیا اور آنٹی کے پاس آکر رک گیا آنٹی فوزیہ نے عظمی کو ڈانٹا کہ کیوں میرے شزادے کو مار رھی ھو تو عظمی بولی تواڈا شزادہ ھوے گا میرے ناں سر چڑیا کرے آیا وڈا شزادہ بوتھی ویکھی شزادے دی میں نے بھی عظمی کو منہ چڑھا دیا عظمی زمین پر پاوں پٹختی واپس کمرے میں چلی گئی
دوستو
آنٹی فوزیہ کی بس دو ھی بیٹیاں تھی وہ بھی جڑواں اس کے بعد ان کے ہاں اولاد نھی ھوئیانکا کوئی بیٹا نھی تھا اس لیے مجھے وہ اپنے بیٹے کی طرح پیار کرتی تھی میرا بھی ذیادہ وقت انکے ھی گھر گزرتا تھا اور انکے گھر یا باہر کے کام سودا سلف وغیرہ میں ھی لا کر دیتا تھا ویسے تو میں اپنے گھر میں نعاب تھا وہ اس لیے کہ میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا اس لیے گھر کا لاڈلا بھی تھا باقی بہن بھائی سب مجھ سے بڑے تھے
عظمی اور نسرین میری ہم عمر ھی تھی نسرین کی نسبت عظمی ذیادہ خوبصورت تھی نسرین بھی کم خوبصورت نھی تھی مگر عظمی کا رنگ نسرین کی نسبت ذیادہ سفید تھا اور جسمانی طور پر بھی عظمی نسرین سے ذیادہ سیکسی تھی عظمی کا قد تقریباً میرے ھی جتنا پانچ فٹ تھا مگر ہم ساتھ کھڑے ھوتے تھے تو عظمی مجھ سے چھوٹی ھی لگتی تھی ویسے عظمی صحت کے معاملے میں مجھ سے ذیادہ صحت مند تھی عظمی کا رنگ کافی سفید تھا جیسے کشمیری ھو اور جسم بھی بھرا بھرا تھا پندرہ سال کی ھی عمر میں اسکے ممے چھوٹے سائز کے مالٹے جتنے تھے اور پیچھے سے بُنڈ بھی کافی باھر کو نکلی ھوئی تھی میں اکثر اسے موٹو کہہ کر بھی چھیڑ لیتا تھا جبکہ نسرین دبلی پتلی سی تھی اسکے بھی چھوٹے چھوٹے ممے تھے مگر .عظمی سے کم ھی تھے
دوستو،،، میں سیالکوٹ کے کہ ایک نواحی گاوں کے متوسط گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں یہ سٹوری ھے ان دنوں کی جب مکاں کچے اور لوگ سچے ہوا کرتے تھے
جب گاوں کے اٹھارہ سال تک کے لڑکے اور لڑکیاں سیکس نام کی کسی چیز کے واقف نھی ھوتے تھے
اسی لیے سب ایک دوسرے کے گھروں میں بلاجھجک چلے جاتے تھے میری عمر اس تقریباً 14 /15سال کے لگ بھگ ھوگی ہمارے گاوں میں صرف ایک ھی پرائمری سکول تھا جس میں صرف دو کمرے ھوتے تھے اور اس سکول میں دو ماسٹر جی پڑھاتے تھے ایک ماسٹر جی تقریباً چالیس سال کا تھا جس کا نام جمال دین تھا اور ایک ماسٹر صفدر صاحب تھے جو تقریباً اٹھائیس تیس سال کے لگ بھگ ھوں گے جو شہر سے پڑھانے آتے تھے سکول میں ایک کلاس میں پہلی سے تیسری کلاس کے بچے پڑھتے تھے اور دوسری کلاس میں چوتھی اور پانچویں کلاس کے بچے پڑھتے تھے
میں اس وقت چوتھی کلاس میں اچھے نمبروں سے پاس ھوا تھا اور میرے ابو جان مجھے شہر کے سکول میں داخل کروانے کے بارے میں امی جان سے بحث کررھے تھے
شہر کہ سکول کا سن کر میرے تو پاوں زمین پر نھی لگ رھے تھے
اور دل میں طرح طرح کے لڈو پھوٹ رھے تھے بڑی بڑی عمارتیں بڑی بڑی گاڑیوں اور شہر کی رونق کے خیالوں میں ڈوبا میں امی جان اور ابو جان کے بحث مباحثہ کو سن رھا تھا
امی جان میرے شہر جانے سے منع کررھی تھی کہ ابھی یاسر بچہ ھے چھوٹا ھے ناسمجھ ھے کیسے شہر جاے گا امی ابو طرح طرح کی دلیلیں دے کر منع کررھی تھی کہ یاسر کو ایک سال اور پڑھنے دو پھر کچھ سمجھدار ھو جاے گا تو چلا جاے گا آخر کار کافی دیر کی بحث مباحثے کے بعد جیت امی جان کی ھوئی میں نے جب اپنے ارمانوں پر پانی پھرتے دیکھا تو رونے والا منہ بنا کر باہر نکل کر آنٹی فوزیہ کے گھر کی طرف چل پڑا جو ہماری ھی گلی میں رہتی تھی انکا گھر ھمارے گھر سے پانچ چھ گھر چھوڑ کر آتا تھا میں آنٹی فوزیہ کے گھر داخل ھوا اور اونچی آواز میں سلام کیا آنٹی فوزیہ بہت ھی نرم دل اور پیار کرنے والی خاتون تھی انکا قد پانچ فٹ چھ انچ اور چھاتی چھتیس انچ کی اور پیٹ بلکل اندر کی طرف تھا اور ہلکی سی گانڈ باہر کو نکلی ھوئی تھی رنگ انکا سفید تھا دوستو یہ سب مجھے اس وقت نھی پتہ تھا بلکہ بعد میں پتہ چلا آپکو پہلے بتانا ضروری سمجھا اس لیے بتا دیا،،
میں نے آنٹی فوزیہ کو دیکھا جو صحن میں لگے بیری کے درخت کے نیچے چارپائی پر بیٹھی سبزی بنا رھی تھی میں چلتا ھوا آنٹی فوزیہ کے پاس پہنچ گیا آنٹی فوزیہ نے مجھے دیکھ کر میرے سر پر پیار دیا اور کہا آگیا میرا شزادہ لگتا ھے آج گھر سے مار پڑی ھے میں منہ لٹکاے آنٹی فوزیہ کے پاس بیٹھ گیا آنٹی فوزیہ بولی کیا ھوا ایسے کیوں رونے والا منہ بنا رکھا ھے میں نے آنٹی فوزیہ کو ساری روداد سنا دی
آنٹی فوزیہ نے مجھے اپنے کندھے کے ساتھ لگا لیا اور مجھے پیار سے سمجھانے لگ گئی کہ دیکھ پُتر تیری امی کو تجھ سے پیار ھے تو ھی تجھے شہر جانے سے روک رھی ھے اور تم لوگوں کے حلات بھی ابھی ایسے ہیں کہ شہر جانے کے لیے ٹانگے کا کرایہ نھی دے سکھی میںنے آنٹی کی بات کاٹتے ھوے کہا وہ گاما تانگے والا بچوں کو شہر لے کر تو جاتا ھے تو آنٹی فوزیہ بولی دیکھ پُتر وہ زمینداروں کے بچے ہیں وہ لوگ تانگے کا کرایہ دے سکتے ہیں تم ایک سال اور پڑھ لو پھر پھر عظمی اور نسرین(آنٹی فوزیہ کی بیٹیاں) بھی شہر جانے لگ جائیں گی تو تم بھی اپنی بہنوں کے ساتھ پیدل ہی نمبرداروں کی زمین کے بنے بنے نہر کی طرف سے چلے جایا کرنا ابھی دل لگا کر پڑھو میں جیسے تمہارے امی ابو کہتے ہیں انکی بات مانو میں نے اچھے بچوں کی طرح ہاں میں سر ہلایا تو آنٹی فوزیہ نے پیار سے میرے سر پر ہاتھ رکھ کر اپنے ساتھ لگا لیا اور شاباش دیتے ھوے بولی یہ ھوئی نہ بات،، میں نے آنٹی فوزیہ سے پوچھا کہ عظمی کدھر ھے تو آنٹی بولی وہ کمرے میں موڈ بنا کر بیٹھی ھے نسرین تو ٹیوشن چلی گئی ھے مگر یہ ایسی ضدی لڑکی ھے کہ میرا کہنا ھی نھی مانتی میں یہ سن کر انٹی کے پاس سے اٹھا اور عظمی کے پاس چلا گیا میں نے دیکھا کہ عظمی سر جھکائے کرسی پر بیٹھی ھوئی ھے،
میں نے جاتے ھی عظمی کو چھیڑنے لگ گیا کہ چنگی مار پئی اے نہ آ ھا آھا تو عظمی نے جوتا اٹھایا اور میرے پیچھے بھاگ پڑی میں آگے آگے بھاگتا کمرے سے باہر آگیا اور آنٹی کے پاس آکر رک گیا آنٹی فوزیہ نے عظمی کو ڈانٹا کہ کیوں میرے شزادے کو مار رھی ھو تو عظمی بولی تواڈا شزادہ ھوے گا میرے ناں سر چڑیا کرے آیا وڈا شزادہ بوتھی ویکھی شزادے دی میں نے بھی عظمی کو منہ چڑھا دیا عظمی زمین پر پاوں پٹختی واپس کمرے میں چلی گئی
دوستو
آنٹی فوزیہ کی بس دو ھی بیٹیاں تھی وہ بھی جڑواں اس کے بعد ان کے ہاں اولاد نھی ھوئیانکا کوئی بیٹا نھی تھا اس لیے مجھے وہ اپنے بیٹے کی طرح پیار کرتی تھی میرا بھی ذیادہ وقت انکے ھی گھر گزرتا تھا اور انکے گھر یا باہر کے کام سودا سلف وغیرہ میں ھی لا کر دیتا تھا ویسے تو میں اپنے گھر میں نعاب تھا وہ اس لیے کہ میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا اس لیے گھر کا لاڈلا بھی تھا باقی بہن بھائی سب مجھ سے بڑے تھے
عظمی اور نسرین میری ہم عمر ھی تھی نسرین کی نسبت عظمی ذیادہ خوبصورت تھی نسرین بھی کم خوبصورت نھی تھی مگر عظمی کا رنگ نسرین کی نسبت ذیادہ سفید تھا اور جسمانی طور پر بھی عظمی نسرین سے ذیادہ سیکسی تھی عظمی کا قد تقریباً میرے ھی جتنا پانچ فٹ تھا مگر ہم ساتھ کھڑے ھوتے تھے تو عظمی مجھ سے چھوٹی ھی لگتی تھی ویسے عظمی صحت کے معاملے میں مجھ سے ذیادہ صحت مند تھی عظمی کا رنگ کافی سفید تھا جیسے کشمیری ھو اور جسم بھی بھرا بھرا تھا پندرہ سال کی ھی عمر میں اسکے ممے چھوٹے سائز کے مالٹے جتنے تھے اور پیچھے سے بُنڈ بھی کافی باھر کو نکلی ھوئی تھی میں اکثر اسے موٹو کہہ کر بھی چھیڑ لیتا تھا جبکہ نسرین دبلی پتلی سی تھی اسکے بھی چھوٹے چھوٹے ممے تھے مگر .عظمی سے کم ھی تھے