• If you are trying to reset your account password then don't forget to check spam folder in your mailbox. Also Mark it as "not spam" or you won't be able to click on the link.

Adultery WO bholi hwi dastan

Kahni kesi ha

  • Good

    Votes: 0 0.0%
  • Bad

    Votes: 0 0.0%

  • Total voters
    0
  • Poll closed .

brego4

Well-Known Member
2,850
11,104
158
arey yaar ye urdu mein story likh di ab hum isko pade kaise ?:bounce:

yaar google translate to kuch aur ki kar deta hai koi translator batao waise story ka start accha hai
 
Last edited:

kamdev99008

FoX - Federation of Xossipians
9,662
37,308
219
bhai ise roman font me post karo.... arabic-persian me sirf kuchh log hi padh sakte hain.... sab nahi
 

Rehan Q

New Member
19
10
19
Update no 7..??????
تینوں سُندا نئی اک دفعہ کے دتا اے ناں کہ میں کُش نئی سُننا جا جان چھڈ میری


میرا رونا تے پہلے ای وٹ تے پیا سی


میں روتے ھوے وھاں سے اٹھا اور کھیت سے ھوتا ھوا کپاس کے کھیت کے ساتھ پانی والے کھالے کی پگڈنڈی پر بیٹھ گیا اور اپنے گُٹنوں میں سر دے کر رونے لگ گیا


دوستو میں گھر اور محلے میں سب لڑکوں سے خوبصورت لاڈلا ھونے کی وجہ سے بہت احساس دل تھا مجھ سے کسی کی ذرا سی بھی ڈانٹ یا پریشانی برداشت نھی ھوتی تھی


اسی وجہ سے عظمی کے سخت رویعے کی وجہ سے روتے ھو میری ہچکی بندھ گئی تھی


مجھے ایسے روتے ھوے بیٹھے کچھ ھی دیر ھوئی تھی کہ مجھے اپنے دائیں کندھے پر نرم سے ھاتھ محسوس ھوے تو میں نے سر اٹھا کر پہلے دائیں طرف اپنے کندھے پر رکھے ہاتھ کو دیکھا اور پھر بائیں طرف گردن گھما کر دیکھا تو عظمی بیٹھی تھی اور پیار سے میرے دائیں کندھے پر ھاتھ رکھ کر مجھے اپنی طرف کھینچتے ھوے چپ کرا رھی تھی


عظمی بولی


میرے شونے کو غصہ آگیا ھے


میں نے غصے سے اپنے کندھے اچکاے اور منہ دوسری طرف کر کے بیٹھ گیا عظمی پھر بولی


میرا چھونا چھونا کاکا نراج ھوگیا اے


اچھا ادھر منہ کرو میری طرف عظمی نے میری ٹھوڑی کو پکڑ کر اپنی طرف منہ کیا اور اپنے دونوں ھاتھ اپنے کانوں کی طرف لے گئی اور اپنے کان پکڑ کر کہنے لگی


معاف کردو سوری بابا


تو میں اسکی معصومیت اور ادا دیکھ کر نا چاہتے ھوے بھی ہنس پڑا


تو عظمی نے شوخی سے میرے کندھے پر چپیڑ ماری اور بولی



چل شوخا


اور ہم دونوں ھنس پڑے


عظمی بولی اچھا بتاو کیا بتانا تھا


تو میں نے کہا


یار بات ایسی ھے کی میں ادھر نھی بتا سکتا اگر کسی نے ہماری بات سن لی تو ہم دونوں کی خیر نھی ایسا کرو کل جب تم آنٹی کے ساتھ کپڑے دھونے نہر پر جاو گی تو تب. میں بھی تم لوگوں کے ساتھ چلوں گا ادھر موقع دیکھ کر بتاوں گا


تو عظمی نے بھی اثبات میں سر ہلایا اور ہم پھر کھیلتے ھوے بچوں میں شامل ھوکر کھیلنے لگ گئے
اگلے دن جمعہ تھا سکول سے ہمیں چھُٹی تھی


میں صبح جلدی اٹھا ناشتہ کرکے امی جان کو فوزیہ آنٹی کے گھر جانے کا کہہ کر باہر گلی میں آگیا اور سیدھا آنٹی کے گھر پہنچ گیا گھر میں داخل ہوتے ھی آنٹی کو سلام کیا اور انکل بھی آج گھر ھی تھے انکو بھی سلام کیا انکل مجھے چھیڑنے لگ گئے کہ


یاسر پتر سنا ھے تم شہری بابو بننے جارھے ھو


میں نے شرماتے ھوے کہا جی انکل میرا ارادہ تو اسی سال تھا کہ شہر میں داخلہ لے لوں مگر امی جان نھی مانی تو انکل نے مجھے پیار سے ساتھ لگا لیا اور میرے سر پر ھاتھ پھیرتے کہنے لگے


چلو چنگی گل اے اگلے سال توں تھوڑا برا ھوجاے گا اور سمجھدار بھی اور پھر تیری دونوں بہنیں بھی شہر ھی جانے لگ جائیں انکے ساتھ ھی چلے جایا کرنا میں ھاں میں سر ہلاتا ھوا انکل کے پاس سے اٹھا اور آنٹی فوزیہ کی طرف چل پڑا جو چارپائی پر بیٹھی قینچی سے اپنے پاوں کے ناخن کاٹ رھی تھی میں نے پیچھے سے جاکر آنٹی کے گلے میں اپنی دونوں باہیں ڈال کر بڑے رومیٹک انداز سے آنٹی فوزیہ کو جپھی ڈال لی ،


آنٹی فوزیہ نے ہلکے نیلے رنگ کا سوٹ پہنا ھوا تھا جسے ہلکا فروزی بھی کہا جاسکتا تھا سوٹ کا کلر ہلکا ہونے کی وجہ سے پیچھے سے آنٹی کے کالے رنگ کے بریزئیر کے سٹرپ صاف نظر آرھے تھے


اور سوٹ کا کلر


انٹی پر بہت جچ رھا تھا


میں نے انٹی کو چھیڑتے کہا کہ آنٹی خیر ھے آج بڑی تیار شیار ھوئی ھو شادی پر جارھی ھو یا پھر آج انکل گھر پر ہیں اس لیے تو آنٹی فوزیہ


حیرت سے میری طرف دیکھتے ھوے بولی


چل گندا بچہ شرم نھی آتی اپنی انٹی سے ایسے بات کرتے ھوے


اور ساتھ ھی انکل کی طرف دیکھتے ھوے کہا سن لو عظمی کے ابا ہمارا شہزادا ابھی شہر نھی گیا مگر اسکو شہر کی ہوا لگ گئی ھے تو انکل بھی اونچی آ واز میں ہنستے ھوے کہنے لگے منڈا جوان ھوگیا اے اسی لیے تم پر لائن مار رھا ھے


میں شرمندہ سا ھو کر جھینپ سا گیا اور جلدی سے آنٹی کے گلے سے اپنی باہیں نکالی اور کمرے میں عظمی لوگوں کے پاس بھاگ گیا مجھے پیچھے سے آنٹی اور انکل کے قہقہوں کی آواز سنائی


اور آنٹی ہنستے ھوے کہہ رھی تھی


گل تے سن کتھے چلاں آں


مگر تب تک میں کمرے میں داخل ھوچکا تھا


اندر گیا تو عظمی اور نسرین کسی بات پر اپس میں بحث کررھی تھی مجھے دیکھ کر دونوں خاموش ھوگئی تو نسرین نے ناک چڑھاتے ھوے کہا آگیا ویلا


تو میں نے بھی اسی کے سٹائل میں اسے جواب دیتے ھوے کہا


توں تے بڑی کاموں اے سارا دن پڑھائی دا بہانہ بنا کہ ویلی بیٹھی ریندی ایں





سارا کام آنٹی کو کرنا پڑتا ھے کھوتے جنی ھوگئی ایں ہانڈی روٹی وی کرلیا کر


عظمی کھلکھلا کر ہنس پڑی تو نسرین کا تیور اور چڑھ گیا اس نے عظمی کو مارنا شروع کردیا


میں جاکر انکے ساتھ بیٹھ گیا کافی دیر ھماری آپس میں نوک جھونک جاری رھی


تقریباً ایک گھنٹے کہ بعد آنٹی اندر آئی اور عظمی اور نسرین کو کہنے لگی





چلو کُڑیو جلدی نال کہڑے چُکو تے نہر تے چلو میرے نال


نسرین نے برا سا منہ بنایا اور اٹھ کر باہر نکل گئی اس کے پیچھے ھی میں اور عظمی بھی کمرے سے باہر نکل آے
 

Rehan Q

New Member
19
10
19
Update no 8..????

کپڑوں کی ایک گٹھڑی عظمی نے سر پر اٹھائی ایک نسرین نے اور ایک میں نے اور آنٹی نے باقی کا سامان صابن کپڑے دھونے والا ڈنڈا اور دیگر ضروری چیزیں ایک لوھے کے تانبیے میں ڈال کر سر پر رکھا اور کپڑے دھونے والا ڈنڈا ھاتھ میں پکڑا اور ہم گھر سے نہر کی طرف چل پڑے کھیتوں میں پہنچ کر آگے پگڈنڈی شروع ھوجاتی تھی جو کھیتوں کے بیچو بیچ نہر کی طرف جاتی تھی ہم سب آگے پیچھے چلتے ھوے نہر کی طرف جار رھے تھے سب سے آگے نسرین تھی اسکے پیچھے عظمی اور اسکے پیچھے میں اور میرے پیچھے آنٹی فوزیہ تھی ہم لڑکھڑاتے ھوے جارھے تھے کیوں کہ پگڈنڈی کی جگہ ہموار نھی تھی کہ اچانک میری نظر عظمی کی گول مٹول بُنڈ پر پڑی جو باہر کو نکلی ھوئی تھی اور اس کے ڈگمگا کر چلنے کی وجہ سے کبھی تھرتھراتی کبھی بُنڈ کی ایک پھاڑی اوپر جاتی کبھی دوسری عظمی کی سیکسی بُنڈ دیکھ کر میں تو سب کچھ بھول چکا تھا اور میری نظر عظمی کی ہلتی ھوئی بنڈ کے نظارے کررھی تھی ہم ایسے ھی چلتے چلتے نہر پر پہنچ گئے اور نہر کے کنارے پر جاکر صاف جگہ دیکھ کر کپڑوں کی گھٹڑیاں نیچے گھاس پر رکھ دی اور بیٹھ کر لمبے لمبے سانس لینے لگ گئے


انٹی نہر کے پانی کے پاس کنارے پر بیٹھ گئی اور ہمیں ایک گٹھڑی کھولنے کو کہا میں جلدی سی اٹھا اور ایک گٹھڑی کو کھولا اور اس میں سے کپڑے نکال نکال کر آنٹی کو دینے لگ گیا جس میں ذیادہ کپڑے انکل کے ھی تھے







آنٹی فوزیہ نے اپنا دوپٹہ اتارا اور پاوں کے بل. بیٹھ کر کپڑے دھونے لگ گئی میری جب نظر آنٹی کے گلے پر پڑی تو آنٹی کی قمیض کا گلا کافی کھلا تھا اور اس میں چٹا سفید آنٹی کا سینہ دعوت نظارہ دے رھا تھا میں آنٹی کے سامنے کھڑا آنٹی کو کپڑے دھوتے دیکھ رھا تھا اور عظمی اور نسرین باقی کی گٹھڑیوں کو کھولنے میں مصروف تھی


وہ دونوں گٹھڑیوں کو کھولنے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ چونچیں بھی لڑا رھی تھی اس لیے انکا دھیان میری طرف نھی تھا


پھر آنٹی نے ایک قمیض کو صابن لگانا شروع کردیا صابن لگانے اور قمیض پر برش مارنے کی وجہ سے آنٹی کو تھوڑا نیچے کی طرف جھکنا پڑا جسکا فائدہ مجھے ھوا کہ آنٹی کے مموں کے درمیانی لائن مجھے صاف نظر آرھی تھی اور میں اس نظارے کو دیکھ کر بہت لطف اندوز ھورھا تھا اور آنٹی جب قمیض پر برش مارتی تو آنٹی کے بڑے بڑے ممے ذور ذور سے اچھل کر قمیض کے گلے سے باہر کو آنے کے لیے بے تاب تھے اور یہ سب دیکھ کر میری حالت قصائی کے پھٹے کے سامنے کھڑے کُتے جیسی تھی،


دوستو آنٹی فوزیہ کہ بارے میں اس وقت بھی میرے دل دماغ کوئی غلط خیال نھی تھا


بس پتہ نھی کیوں مجھے آنٹی کی بُنڈ اور مموں کو دیکھ کر ایک عجیب سا نشہ ھوجاتا اور یہ سب کچھ کرتے مجھے بہت اچھا محسوس ھوتا،،،


میں انٹی کے مموں میں کھویا ھوا تھا کہ انٹی نے قمیض پر برش مارنا بند کیا اور قمیض کو اٹھا کر نہر میں ڈبونے کے لیے جُھکی


تو دوستو یقین کرو بے ساختہ میری ایڑھیاں اوپر کو اٹھی جو نظارا میرے سامنے تھا میرا بس چلتا تو اسی وقت آگے بڑھ کر آنٹی کے دونوں دودھیا رنگ کے مموں کو اپنے دونوں دونوں ھاتھوں کی مٹھیوں میں بھر لیتا اور ذور سے سائکل پر لگے پاں پاں کرنے والے ھارن کی طرح بجانے لگ جاتا


آنٹی فوزیہ کے دونوں ممے گلے سے بلکل باہر کی طرف تھے اور میں یہ دیکھ کر حیران رھ گیا کہ آنٹی نے برا بھی نھی پہنی ھوئی تھی شاید آتے ھوے گھر ھی اتار آئی تھی آنٹی کےمموں کے صرف نپل ھی قمیض کے گلے کے کنارے پر اٹکے ھوے تھے اور انکے مموں پر گول براون دائرہ بھی نظر آرھا تھا


یہ دیکھ کر میرا تو حلق خشک ھونے لگ گیا


کہتے ہیں نہ کہ عورت کی چھٹی حس بہت تیز ھوتی ھے اسے اسی وقت پتہ چل جاتا ھے کہ کون اسکی طرف دیکھ رھا ھے اور اسکے جسم کے کون سے عضو پر نظر کا تیر لگ رھا ھے


یہ ھی میرے ساتھ ھوا آنٹی کی چھٹی حس نے کام کیا اور آنٹی نے سر اٹھا کر میری طرف دیکھا


میں آنٹی کے مموں میں اسقدر کھویا ھوا تھا کہ مجھے یہ بھی احساس نھی ھوا کہ آنٹی مجھے دیکھ رھی ھے اچانک آنٹی نے اپنا ایک ھاتھ اپنے سینے پر رکھا اور مجھے آواز دی کہ یاسر


میں انٹی کی آواز سن کر ہڑبڑا گیا اور گبھرا کر آنٹی کی آنکھوں میں انکھیں ڈال کر بولا جی آنٹی جی


تو آنٹی ہلکے سے مسکرائی اور بولی بیٹا ادھر جا کر اپنی بہنوں کے ساتھ بیٹھ جاو ادھر پانی کے چھینٹے تم پر پر رھے ہیں میں شرمندہ سا سر جھکائے عظمی لوگوں کے پاس جاکر بیٹھ گیا شرم کے مارے میں نے دوبارا آنٹی کی طرف نھی دیکھا بلکہ انکی طرف پیٹھ کرکے منہ کھیتوں کی طرف کر کے بیٹھ گیا


کچھ دیر بیٹھنے کے بعد آنٹی کی آواز آئی کی عظمی یہ کپڑے سوکھنے کے لیے ڈال دو عظمی جلدی سے اٹھی اور کپڑوں کا لوھے کا ٹپ جسے ہم تانبیا اور بٹھل بھی کہتے تھے اٹھا کر نہر کے کنارے سے نیچے اترنے لگی مگر اس سے نیچے نھی اترا جارھا تھا

تبھی اس نے مجھے آواز دی کہ کپڑے نیچے لے جاو مجھ سے نھی یہ اٹھا کر نیچے جایا جا رھا میں جلدی سے اس کے پاس پہنچا اور کپڑے پکڑ کر نیچے اتربے لگ گیا وہ بھی میرے پیچھے پیچھے نیچے آرھی تھی


نیچے آکر عظمی نے اپنا دوپٹہ اتار کر مجھے پکڑایا اور اپنے بالوں کو پیچھے سے پکڑ کر گول کر کے پونی کرنے لگ گئی ایسے کرنے سے اس کے ممے بلکہ اوپر کو ھوگئے میری پھر نظر عظمی کے مموں پر ٹک گئی عظمی نے میری طرف دیکھا اور آنکھ کے اشارے کے ساتھ اپنا سر اوپر کو ہلاتے ھوے مجھ سے پوچھا کیا ھے میں اس کے اچانک اس اشارے سے کنفیوز سا ھوگیا اور اسے کہنے لگا جججججلدی کپڑے ڈال لو آنٹی نے پھر آواز دے دینی ھے


تو عظمی جلدی جلدی کپڑوں کو نہر کے کنارے پر اگی صاف گھاس کے اوپر پھیلانے لگ گئی


میں اپنی ان حرکتوں سے خود بڑا پریشان سا ھوگیا تھا


اور منہ ھی منہ میں ماسٹر اور فرحت کو گالیاں دینے لگ گیا


کہ


گشتی دے بچیاں نے مینوں وی کیڑے کم تے لادتا اے


چنگا پلا شریف سی


تبھی عظمی نے سارے کپڑے پھیلا دیے اور مجھے اوپر چلنے کا کہا تو میں اسکے پیچھے پیچھے اسکی ہلتی گانڈ کا نظارا کرتے کرتے جانے لگ گیا


ہم پھر جاکر اسی جگہ بیٹھ گئے فرق بس اتنا تھا کہ اب میرا منہ آنٹی کی طرف تھا انٹی میرے سامنے سائڈ پوز لیے بیٹھی کپڑے دھو رھی تھی
 

Rehan Q

New Member
19
10
19
Update no 9....?????
اب میرا منہ آنٹی کی طرف تھا انٹی میرے سامنے سائڈ پوز لیے بیٹھی کپڑے دھو رھی تھی آنٹی کے کپڑے بھی کافی گیلے ہو چکے تھے جس میں سے انکی ران صاف نظر آرھی تھی اور سائڈ سے کبھی کبھی مما بھی نظر آجاتا
آنٹی نے پھر آواز دی کے یہ بھی کپڑے سُکنے ڈال دو میں جلدی سے اٹھا اور کپڑوں کا ٹب پکڑا اور عظمی کو ساتھ لیے نیچے اگیا اب ہم کچھ دور چلے گئے تھے کیوں کہ اب وہاں کوئی صاف جگہ نھی تھی اس لیے ہم تھوڑا آگے مکئی کی فصل کے پاس چلے گئے
تو عظمی بولی اب بتاو مجھے کیا بتانا تھا
میں انٹی لوگوں کی طرف دیکھنے کی کوشش کی مگر وہ اونچی جگہ اور ذیادہ فاصلے کی وجہ سے نظر نہ آے تو میں نے عظمی کو کہا تم ساتھ ساتھ کپڑے ڈالتی جاو میں تمہیں بتاتا چلو گا تو عظمی نے اثبات میں سر ہلایا میں نے عظمی کو کہا کہ دیکھو یہ بات تمہارے اور میرے درمیان میں ھی رھے ورنہ ہم دونوں پھنسیں گے بلکہ تم یہ بات نسرین کے ساتھ بھی مت کرنا عظمی بولی تم نے مجھے پاگل سمجھ رکھا ھے جو میں کسی کو بتاوں گی
میں نے کہا اس دن ماسٹر اور فرحت گندے کام کر رھے تھے میں انکو دیکھ رھا تھا کہ اچانک فرحت کی نظر مجھ پر پڑی تو میں ڈر کر بھاگ آیا ،،،
عظمی حیرانگی سے بولی کون سا گندا کام کررہے تھے میں پریشان سا بولا وہ ھی گندا کام تو وہ معصومیت سے میری طرف منہ کر کے بولی کون ساااااااا
میں نے گبھراے ھوے لہجے میں کہا یار اب میں کیسے بتاوں مجھے شرم آرھی ھے تو عظمی بولی دیکھتے ھوے شرم نھی آئی تھی جو اب بتاتے ھوے شرم آرھی ھے تو میں نے کہا یار میں کون سا انکو دیکھنے کے لیے اندر گیا تھا وہ تو مجھے آنٹی فرحت کی چیخ سنائی دی تھی تو میں گبھرا کر اندر دیکھنے گیا تھا کہ پتہ نھی آنٹی کو کیا ھوا ھوگا مگر جب میں اندر گیا تو آنٹی فرحت اور ماسٹر جی،،،
یہ کہہ کر میں پھر چپ ھوگیا تو عظمی جھنجھلا کر بولی
درفٹے منہ اگے وی بولیں گا کہ نئی
میں سر کے بالوں میں ھاتھ پھیرتے ھوے نیچے منہ کر کے بولا
ماسٹر جی نے فرحت آنٹی کو ننگا کیا ھوا تھا اور جپھی ڈالی ھوئی تھی
اور دونوں ایک دوسرے کی چُمیاں لے رھے تھے
اور ماسٹر جی نے انٹی کے دودو ننگے ھی پکڑے ھوے تھے
میں نے ایک سانس میں ھی اتنا کچھ بتا دیا
عظمی میرے بات سنتے ھی ایسے اچھلی جیسے اسے کسی سانپ نے کاٹ لیا ھو
اور اپنے دونوں ھاتھ اپنے منہ کے اگے رکھ کر بولی
ھاےےےے ****** میں مرگئی
فیر
میں ابھی آگے بتانے ھی لگا تھا کہ نسرین نے نہر کے اوپر سے ہماری طرف آتے ھوے آواز دے دی کہ
امی بلا رئی اے تواڈیاں گلاں ای نئی مُکن دیاں
میں نے عظمی کو کہا یار کل جب ہم کھیلنے آئیں گے تو تفصیل سے ساری بات بتاوں گا
ابھی چلو ورنہ آنٹی غصہ ھونگی
میں یہ کہہ کر نہر کے اوپر چڑھنے کے لیے چل پڑا میرے پیچھے پیچھے. عظمی بھی بڑبڑاتی آگئی
کچھ دیر ہم اور نہر پر ھی رھے پھر ہم نے سارے کپڑے سمیٹے اور اسی انداز میں گھر کی طرف چل پڑے راستے میں بھی کوئی خاص بات نھی ھوئی
مگر میں آنٹی سے نظریں چرا رھا تھا
ایسے ھی چلتے ھوے ھم گھر پہنچ گئے
اگلے دن سکول
میں بھی کچھ خاص نھی ھوا شام کو میں آنٹی فوزیہ کے گھر گیا اور عظمی اور نسرین کو ساتھ لے کر کھیت کی طرف چل پڑا کھیت میں پہنچے تو پہلے ھی کافی بچے جمع ھوچکے تھے ہم نے لُکم میٹی کے لیے اپنی اپنی باریاں پُگنے لگ گئے آخر میں
میں عظمی اور ایک محلے کہ لڑکے کے سر باری دینی آئی ہم تینوں سڑک پر جاکر اپنا منہ کھیت کی دوسری طرف کر کے کھڑے ھوگئے اور باقی سب بچے اپنی اپنی جگہ پر چھُپنے کے لیے اِدھر اُدھر بھاگ گئے کچھ دیر بعد ایک بچے کی آواز آئی کہ
لب لو
تو ہم تینوں کھیت کی طرف بھاگے خالی کھیت سے گزر کر کپاس کے کھیت کے قریب آکر کھڑے ھوگئے. اور آپس میں مشورہ کرنے لگ گئے کہ کون کسطرف سے ڈھونڈنا شروع کرے ہمارے ساتھ والا لڑکا کہتا کہ یاسر تم نہر والے بنے سے جاو عظمی درمیان سے جاے اور میں دوسری طرف سے جاتا ھوں
عظمی بولی نہ بابا میں نے اکیلی نے نھی جانا مجھے ڈر لگتا ھے تو تبھی میں نے عظمی کا ھاتھ پکڑ کر دبا دیا شاید وہ میرا اشارا سمجھ گئی تھی اس لیے چُپ ھوگئی
تب میں نے کہا کچھ نھی ھوتا
نئی تینوں جِن کھاندا
اور میں نے اس لڑکے کو دوسری طرف جانے کا کہا وہ میری بات سنتے ھی دوسری طرف بھاگ گیا
میں نے عظمی کا ہاتھ پکڑا اور اسے لے کر کپاس کے کھیت کے درمیان نہر کی طرف جاتی ھوئی پگڈنڈی پر چل پڑے عظمی راستے میں ھی مجھ سے پوچھنے لگ گئی کہ اب تو بتا دو اب کون سا کوئی ھے یہاں میں نے اسے کہاں چلو کھالے کے پاس جاکر بیٹھ کر بتاتا ھوں عظمی نے اثبات میں سر ہلایا ،،
تھوڑا آگے جاکر میں نے عظمی کو اپنے آگے کر لیا اور میں اسکے پیچھے پیچھے چل پڑا ہم چلتے چلتے کپاس کی فصل کے آخر میں چلے گئے اس سے آگے پانی کا کھالا تھا جسکو کراس کر کے مکئی کی فصل شروع ھوجاتی تھی میں نے عظمی کو کھالا کراس کرنے کا کہا اور اسکے پیچھے ھی میں نے بھی چھلانگ لگا کر کھالے کی دوسری طرف پہنچ گیا
میں نے عظمی کا ہاتھ پکڑا اور کھالے کے کنارے پر لگی ٹاہلی کے پیچھے کی طرف لے گیا جہاں پر گھاس اگی ھوئی تھی اور بیٹھنے کے لیے بہت اچھی اور محفوظ جگہ تھی ہمیں وھاں بیٹھے کوئی بھی نھی دیکھ سکتا تھا ،،
ہم دونوں چوکڑیاں مار کر ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھ گئے
تب عظمی نے مجھ سے بےچین ھوتے ھوے کہا
چلو بتاو نہ اب
میں تھوڑا کھسک کر اسکے اور قریب ھوگیا اب ھم دونوں کے گھُٹنے آپس میں مل رھے تھے
میں نے عظمی کو کہا کہاں تک بتایا تھا تو عظمی بولی
تم شروع سے بتاو مجھے سہی سمجھ نھی آئی تھی
تو میں نے بتانا شروع کردیا
کہ میں نے دیکھا ماسٹر جی نے فرحت کی قمیض آگے سے اٹھائی ھوئی تھی اور انکے بڑے بڑے مموں کو ھاتھ سے مسل رھے تھے اور دونوں ایک دوسرے کے ھونٹ چوس رھے تھے
ماسٹر جی پھر فرحت کے ممے چوسنے لگ گئے تب فرحت نے بھی اپنی آنکھیں بند کی ھوئی تھی
عظمی بڑے غور سے میری بات سن رھی تھی اسکا رنگ بھی ٹماٹر کی طرح سرخ ھوتا جارھا تھا
عظمی بولی پھر کیا ھوا
تو میں نے کہا ماسٹر جی نے فرحت کا نالا کھول دیا تھا اور اسکی شلوار نیچے گر گئی تھی
اور ماسٹر جی نے اپنا ھاتھ وھاں پر رکھ دیا
تو عظمی بولی کہاں
تو میں نے کہا نیچے
عظمی بولی کہاں نیچے
تو میں نے ایکدم اپنی انگلی عظمی کی پھدی کے پاس لیجا کر اشارے سے کہا یہاں پر
تو عظمی ایکدم کانپ سی گئی
جبکہ میری انگلی صرف اسکی قمیض کو ھی چھوئی تھی
عظمی نے کانپتے ھوے جلدی سے میرا ھاتھ پکڑ کر پیچھے کر دیا
میں نے پھر بتانا شروع کردیا کہ کیسے ماسٹر جی فرحت کی پھدی کو مسلتے رھے اور کیسے فرحت مدہوش ہوکر نیچے بیٹھ گئی اور فرحت نے کیسے میری طرف دیکھا اس دوران عظمی بڑی بےچین سی نظر آرھی تھی اور بار بار اہنے ہونٹوں پر زبان پھیرتی
کہ اچانک عظمی نے اپنا ھاتھ پیچھے کھینچا
تو میں ایک دم چونکا
کہ میں نے عظمی کا ہاتھ پکڑ کر اپنی گود میں رکھا ھوا تھا اور نیچے سے میرا لن تنا ھوا تھا شاید عظمی نے میرے لن پر اپنا ھاتھ محسوس کر لیا تھا
عظمی بولی شرم نھی آتی گندے کام کرتے ھوے میں نے بڑی معصومیت اور حیرانگی سے کہا اب کیا ھوا ھے
تو عظمی بولی
میں گھر جاکر امی کو بتاتی ھوں کہ آپکا یہ شہزادا جوان ھوگیا ھے اسکی شادی کردو اب
تو میں نے کہا
میری کون سی جوانی تم نے دیکھ لی ھے
اور میں بھی آنٹی کو سب بتا دوں گا
اور میں بھی کہہ دوں گا کہ عظمی سے ہی کردو میری شادی تو عظمی شوخی سے بولی کہ شکل دیکھی اپنی
بچو تم ایک دفعہ گھر تو چلو پھر پتہ چلے
 

Rehan Q

New Member
19
10
19
Update no... 10..???


میں بھی اندر سے ڈر گیا کہ سالی سچی مُچی ھی نہ بتا دے
میں نے بھی عظمی کو دھمکی دیتے ھوے کہہ دیا


کہ جاو جاو بتا دو مجھے نھی ٹینشن
میں بھی بتا دوں گا کہ تم نے مجھ سے پوچھا تھا تو بتا دیا
تو عظمی نے میرے لن کی طرف دیکھا جو ابھی تک قمیض کو اوپر اٹھاے عظمی کو سلامی دے رھا تھا
عظمی بولی نہ نہ میں تو تمہارے جوان ھونے کا امی کو بتاوں گی
تو میں نے گبھراتے ھوے کہا
کون جوان کونسی جوانی
تو عظمی نے ذور سے میرے لن پر تھپڑ مارا اور ہنستے ھوے بولی
یہ جوانی اور یہ کہہ کر اٹھ کر بھاگ نکلی
اسکے اس طرح تھپڑ مارنے سے میرے لن پر ہلکی سی درد تو ہوئی مگر میں برداشت کرگیا اور ایسے ھی ڈرامائی انداز میں بولا
ھاےےےےے میں مرگیا افففففف
عظمی نے ایک نظر پیچھے میری طرف دیکھا اور ہنستے ھوے بولی
مزا آیا
اور کھالا پھلانگ کر دوسری طرف چلی گئی اور میں بھی اسکے پیچھے بھاگا کہ ٹھہر بتاتا ھوں تجھے کیسے مزا آتا ھے
مجھے پیچھے آتے دیکھ کر عظمی نے گھر کی طرف پگڈنڈی پر بھاگنا شروع کردیا مگر میں نے اسے کچھ دور جاکر پیچھے سے جپھی ڈال کر پکڑ لیا
میرا لن عظمی کی نرم سی گول مٹول پیچھے نکلی ھوئی گانڈ کے ساتھ چپک گیا میرے دونوں ھاتھ اسکے نرم سے پیٹ پر تھے عظمی ہنستے ھوے بولی چھوڑو مجھے چھوڑو مجھے میں امی کو بتاوں گی
میں نے عظمی کو اور کس کے پکڑ لیا اسی چھینا جھپٹی میں میرے لن نے پھر سر اٹھا لیا اور عظمی کی بُنڈ کی دراڑ میں گھسنے کی کوشش کرنے لگ گیا


عظمی نے بھی شاید لن کو اپنی بُنڈ پر محسوس کرلیا تھا اس لیے وہ اور ذیادہ مچلنے لگ گئی اور اپنا آپ مجھ سے چُھڑوانے کی کوشش کرنے لگ گئی مگر مرد مرد ھی ھوتا ھے چاھے چھوٹی عمر کا ہو یا بڑی عمر کا
عظمی کو جب یہ احساس ھوگیا کہ ایسے ذور آزمائی سے جان نھی چھوٹنے والی تو عظمی نیچے بیٹھنے لگ گئی جب عظمی آگے کو جُھک کر نیچے ھونے لگی تو پیچھے سے میرا لن عظمی کی گانڈ کی دراڑ میں کپڑوں کو اندر کی طرف دھکیل چکا تھا
اور لن کی ٹوپی اسکی بنڈ کی موری کے اوپر جالگی اور آگے سے میرے دونوں ھاتھ اس کے پیٹ سے کھسکتے ھوے اسکے دونوں مموں پر آگئے
عظمی کو نیچے جھک کر بیٹھنا مہنگا پڑا
عظمی کے دونوں ممے جیسے ھی میرے ھاتھ میں آے تو مجھے بھی ایک جھٹکا سا لگا
اور میں نے عظمی کے دونوں مموں کو اپنی مُٹھیوں میں بھر لیا
عظمی کو جب میری اس کاروائی کا احساس ھوا تو عظمی نے رونا شروع کردیا
اور روتے ھوے غصے سے بولی چھوڑو مجھے میں امی کو بتاوں گی تم میرے ساتھ گندی حرکتیں کرتے ھو
عظمی کو روتا دیکھ کر اور اسکی دھمکی سن کر میں بھی ڈر گیا
اور ساتھ ھی میں نے اسے چھوڑ دیا
عظمی ویسے ھی پاوں کے بل بیٹھ کر اپنے دونوں بازو اپنے گھٹنوں پر رکھ کر اور اپنا منہ بازوں میں دے کر رونے لگ گئ
میں اسکی یہ حالت دیکھ کر مزید ڈر گیا اور اسے کہنے لگ گیا کہ
یار اپنی دفعہ تم رونے لگ جاتی ھو خود جو مرضی کرلیتی ھو میں نے کبھی ایسے غصہ کیا ھے
چلو اٹھو نھی تو میں جارھا ھوں تو عظمی روتے ھوے بولی جاو دفعہ ھوجاو میں نے نھی جانا تمہارے ساتھ
تو میں بھی غصے سے اسے وھیں چھوڑ کر گھر کی طرف چل پڑا کچھ ھی آگے جاکر میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو عظمی بھی سر نیچے کئے آہستہ آہستہ چلی آرھی تھی


دوستو کچھ دن ایسے ھی گزر گئے میں بھی ان دنوں ڈرتا آنٹی فوزیہ کے گھر نھی گیا کہ عظمی نے کہیں میری سچی ھی شکایت نہ لگا دی ھو
مگر ایسا کچھ نھی ھوا،
ایک دن ہم سکول میں بیٹھے تھے کہ
فرحت بڑی سی چادر لیے اور نقاب کیے ھوے آگئی اور ہمارے پاس سے گزر کر ماسٹر جی کہ پاس جاکر ماسٹر جی کو سلام کیا
جب فرحت میرے پاس سے گزری تو اس سے بڑی دلکش خوشبو آئی تھی جیسے ابھی نہا کر آئی ھو
فرحت کو دیکھ کر ماسٹر جی کے چہرے پر عجیب سی چمک آئی اور ماسٹر جی نے شیطانی مسکان کے ساتھ فرحت کے سلام کا جواب دیا اور بڑے انداز سے فرحت کو بیٹھنے کا کہا
میں نے فرحت کو دیکھا تو ساتھ بیٹھی عظمی کو کہنی ماری اور فرحت کی طرف آنکھ سے اشارا کیا
تو عظمی نے جوابی کاروائی کرتے ھوے مجھے کہنی ماردی اور منہ بسور کر بولی دفعہ ھو ے
فرحت ماسٹر جی سے آنکھیں مٹک مٹک کر باتیں کرنی تھی جبکہ چہرے پر نقاب تھا صرف آنکھیں ھی نظر آرھی تھی
ماسٹر جی سے بات کرتے ھوے فرحت کے ہونٹوں سے ذیادہ آنکھیں ہل رھی تھی
وہ دونوں بڑی آہستہ آہستہ باتیں کررھے تھے
اور باتوں کے ھی دوران فرحت کبھی کبھی نہ نہ میں سر ہلاتی ایک دفعہ تو اس نے اپنے کان کو ہاتھ لگایا تھا
میں نے بڑی کوشش کی کہ انکی کسی بات کی مجھے سمجھ آجاے مگر
میں ناکام ھی رھا بس انکی باڈی لینگویج سے ھی قیاس کر کے انکی باتوں کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگا
کہ اچانک ماسٹر جی نے ظہیر کو آواز دی اور ظہیر جلدی سے کھڑا ھوا اور سیدھا ماسٹر جی کے پاس جا پہنچا ماسٹر جی نے کرسی پر ھی بیٹھے ہوے ھی ظہیر کو اپنے دائیًں طرف کرسی کے بازو کے پاس کھڑا اسی کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اپنے ساتھ لگا کر کھڑا کرلیا اورظہیر کے بارے میں فرحت سے باتیں کرنے لگ گیا
بات کرتے کرتے فرحت نے اپنا نقاب اتار دیا تھا
میری جب نظر فرحت پر پڑی
میں تو سکتے کہ عالم میں آگیا
کیا پٹاخہ بن کر آج آئی تھی سالی
فرحت کو دیکھ کر میں تو حیران ھی رھ گیا کہ سالی آج بڑی لش پش ھوکر آئی ھے آنکھوں میں کاجل ہونٹوں پر سرخ رنگ کی لپسٹک جو اسے بہت ھی سوٹ کررھی تھی
ایک بات تو کنفرم ہوچکی تھی کہ فرحت نے مجھے دیکھا نھی تھا اگر دیکھا ھوتا تو وہ لازمی میری طرف دیکھتی یا پھر کوئی ایسا ردعمل ظاہر کرتی جس سے مجھے شک ھوتا کہ اس نے مجھے دیکھ لیا ھے مگر وہ تو مجھے بلکل نظرانداز کر کے ماسٹر جی کے ساتھ ایسے محو گفتگو تھی جیسے مجھے جانتی ھی نھی
 

Rehan Q

New Member
19
10
19
Update no 11.....???


میں بھی آنکھیں پھاڑے فرحت کے چہرے کو ھی دیکھی جارہی تھا
ماسٹر جی نے کچھ دیر ظہیر کی کمر پر تھپ تھپی دے کر اسے واپس کلاس میں بھیج دیا اور پھر فرحت سے باتیں کرنے لگ گیا،،
دوستوں یہاں میں ایک بات بتاتا چلوں کہ سکول میں ماسٹر تو دو ھی تھے جنکا تعارف پہلے کروا چکا ھوں مگر ذیادہ تر سکول میں ایک وقت میں ایک ھی ماسٹر ھوتا تھا جب ایک ھوتا تو دوسرا چھٹی پر ھوتا کیوں کہ اس دور میں گاوں کے سکولوں پر اتنی توجہ نھی ھوتی تھی ماسٹرز تو بس ٹائم پاس ھی کرنے آتے تھے
اس لیے اس دن بھی ماسٹر صفدر اکیلے ھی تھے اس لیے فرحت سے گپ شپ لگا رھے تھے
جس انداز سے دونوں باتیں کر رھے تھے کسی بچے کی بھی توجہ انکی طرف نھی تھی اگر میں نے انکی کرتوت کو دیکھا نہ ھوتا تو شاید میں بھی انکی طرف اتنی توجہ نہ دیتا،
ماسٹر جی اور فرحت اپنی باتوں میں مسلسل مست تھے
میں نے ایک دفعہ پھر عظمی کو کہنی ماری اور آہستہ سے کہا لگتا ھے آج پھر ماسٹر جی فرحت کے ساتھ گندا کام کریں گے
اگر تم نے بھی دیکھنا ھے تو دونوں چلیں گے دیکھنے
تو عظمی بولی
مروانا اے مینوں آپ تے مریں ای مریں گا نال مینوں وی مروائیں گا
میں نے کہا یار کُش نئی ہوندا
تو عظمی بولی نہ بابا نہ میں تے نئی جانا
ہم یہ باتیں کر ھی رھے تھے کہ فرحت جانے کے لیے اٹھی اور پھر سے نقاب کر لیا اور ماسٹر جی کو سلام کر کے واپس جانے لگی فرحت جیسے ھی میرے پاس سے گزری تو مجھے پھر اس سے بھینی بھینی سے تبت پوڈر کی خوشبو آئی اور میں بھی ناک کو سکیڑ کر اس خوشبو سے لطف اندوز ھوا


دوستو جیسا کے میں پہلے بھی بتا چکا ھوں کہ کمرے ہماری کلاس کی مخالف سمت تھے ہماری پیٹھ کمروں کی طرف تھی اور سکول کے گیٹ سے اندر آنے والی کچی سڑک کمروں کے آگے سے ھوتی ھوئی ہماری کلاس کی طرف آتی تھی اگر کوئی سڑک کے راستے سے باھر کی طرف جاتا تو کمروں کے آگے سے گزر کر واپس جاتا


فرحت کے وھاں سے جانے کے فورن بعدماسٹر جی نے سبکو ھوم ورک چیک کرانے کا کہا میں جلدی سے اٹھا اور میرا پہلے ھی دھیان فرحت ھی کی طرف تھا تو میں نے اٹھتے ھی سر گھما کر پیچھے دیکھا تو مجھے فرحت دفتر والے کمرے میں داخل ھوتی نظر آگئی میں نے جلدی سے سر واپس گھما لیا ایسا بس


دو تین سیکنڈ میں ھی ھوا
اور میں دستہ پکڑے ماسٹر جی کے پاس جا پہنچا،
ماسٹر جی بولے
تینوں بڑی کالی اے کم چیک کروانا دی پُھپھی نوں ٹیم دتا ھوگیا اے،
میں جھینپ سا گیا اور سر نیچے کیے کھڑا ھوگیا ماسٹر جی نے غصہ سے دستہ میرے ھاتھ سے لیا اور جلدی جلدی ایک نظر چند ورقوں پر ماری اور دستہ مجھے واپس پکڑاتے ھو کہنے لگے
میں ذرہ کمرے میں سونے کے لیے جارھا ھوں میرے سر میں درد ھے
تم سب بچوں کا کام چیک کرو اور خبردار کسی بچے کی آواز بھی میرے کانوں میں پڑی تو تمہاری خیر نھی
میں نے یس سر کہا اور دستہ لیے اپنی جگہ ہر جاکر بیٹھ گیا
اتنے ماسٹر جی اٹھے اور مجھے اپنی جگہ پر آنے کا کہا اور جاتے جاتے مجھے پھر اپنی دھمکی کی یاددھانی کرواتے ہوے کمرے کی طرف چل پڑے
مجھے تو پتہ تھا کہ ماسٹر جی کے سر میں نھی بلکہ لن میں درد ھے
،،
ماسٹر جی کو کمرے کی طرف جاتا دیکھ کر میں بھی اٹھ کر ماسٹر جی کی کرسی کے پاس جاکر کھڑا ھوگیا اور ساتھ پڑی ھوی کرسی پر بیٹھ گیا ،
کرسی پر بیٹھتے ھی میں نے عظمی کو اپنی آنکھوں سے اشارہ کرتے ہوے سر ہلاتے کمرے کی طرف متوجہ کیا تو عظمی نے برا سا منہ بنا کر مجھے گھورا اور پھر اپنی گود میں پڑی کتاب کی طرف دیکھنے لگ گئی
میں نے سب بچوں کو ہوم ورک چیک کروانے کا کہا سب سے پہلے عظمی میرے پاس آئی اور بڑے نخرے اور شوخی سے دستہ مجھے پکڑایا
میں نے عظمی کی طرف دیکھتے ھوے کہا کہ میں کام چیک کر کے کمرے میں جارھا ھوں تم نے آنا ھے تو آجانا اور خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لینا
عظمی بولی شرم نھی آتی تمہیں ایسے گھٹیا کام کرتے میں نے کہا تمہیں شرم نھی آتی ایسی گھٹیا باتیں سنتے تو عظمی غصے سے مجھے گھورتے ھوے بولی چل چل جلدی کام چیک کر آیا وڈا شریف ذادہ
میں نے کام چیک کرکے دستہ اسے واپس دے دیا
پھر سب بچوں کا جلدی جلدی کام چیک کیا اور جاکر عظمی کے پاس بیٹھ گیا
عظمی میری طرف دیکھتے ھوے بولی گئے نئی اب تو میں نے کہا تم چلو گی تو میں بھی جاوں گا
تو عظمی بولی مجھے مرنے کا شوق نھی
اگر ماسٹر جی کو پتہ چل گیا نہ تو سکول سے بھی مار پڑے گی اور گھر سے بھی
تو میں نے کہا یار گبھراتی کیوں ھو


میں ہوں نہ تمہارے ساتھ
تو عظمی بڑی شوخی سے بولی
وجہ ویکھی اے اپنی آیا وڈا پہلوان
تو میں نے بھی فوری جواب دیتے ھوے کہا کہ کبھی ازما کر دیکھ لینا اس پہلوان کو تو عظمی بولی
کی مطلب اے تیرا
تو میں نے جلدی سے بات کو گھماتے ھوے کہا
میرا مطلب کہ کُشتی کر کے دیکھ لینا
تو عظمی بولی جا جا ویکھے تیرے ورگے


میں نے کہا اچھا یار جانا ھے تو میرے پیچھے کمروں کے پیچھے کی طرف آجانا میں تمہارا تھوڑی دیر انتظار کروں گا ورنہ تمہاری مرضی یہ کہہ کر میں اٹھنے لگا تو عظمی نے میرا بازو پکڑ لیا ،
اور بولی یاسر نہ جاو مجھے ڈر لگ رھا ھے میں نے اپنا بازو چھڑواتے ھوے کہا تم تو ھو ھی ڈرپوک میں نے کہا نہ کہ کچھ نھی ھوتا اور یہ کہہ کر میں کمروں کی طرف چل پڑا کمروں کے پیچھے پہنچ کر میں نے کمرے کی دیوار کی اوٹ سے کلاس کی طرف دیکھا تو مجھے عظمی آتی ھوئی دیکھائی دی،
کچھ ھی دیر بعد عظمی میرے پاس پہنچ گئی میں نے عظمی کا ہاتھ پکڑا اور اسے لے کمرے کی کھڑکی کے پاس آگیا اور یہ کنفرم کرنے لگ گیا کہ ماسٹر جی اور فرحت واقعی دفتر کے پیچھے بنے سٹور میں ھی ہیں یا کہ ابھی دفتر میں ھی ہیں تو میں نے کھڑکی کے پاس ھوکر اندر سے آواز سننے کی کوشش کی تو دونوں جنسیں اندر ھی تھی میں نے عظمی کا پھر ہاتھ پکڑا اور اسے لے کر کمرے کے پیچھے سے ھوتا ھوا دوسری طرف دروازے کے پاس پہنچ گیا
عظمی پھر بولی یاسر میرا دل گبھرا رھا ھے
میں نے دروازے کے پاس پہنچ کر کلاس کی طرف دیکھا تو سب بچے دوسری طرف منہ کر کے اپنے دھیان میں لگے ھوے تھے


میں نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ھوے عظمی خاموش رہنے کا اشارا کیا
اور آہستہ سے دروازہ کھولا اور دونوں اندر داخل ھوگئے کیوں کہ دروازے کی اندر سے کُنڈی نھی تھی صرف باہر ھی کُنڈی لگی ھوئی تھی اندر داخل ہوتے ھی میں نے بڑے آرام سے دروازہ بند کردیا
دوستو
دفتر والے حصہ میں کھڑکی نہ ھونے کی وجہ سے اندھیرا سا تھا
بلکہ دفتر کی پچھلی سائڈ پر کھڑکی ھونے کی وجہ سے اسطرف کافی روشنی تھی جسکا ہمیں یہ فائدہ ھوا کہ ہم دوسری طرف آسانی سے دیکھ سکتے تھے اور دوسری طرف والے ہمیں نھی دیکھ سکتے تھے
میں عظمی کو لیے ھوے پردے کے پاس جا پہنچا
 

Rehan Q

New Member
19
10
19
Update,,,, no,, 12....

میں نے آگے ہوکر تھوڑا سا پردہ ہٹایا تو اندر ماسٹر جی نے فرحت کو چارپائی پر لٹایا ھوا تھا اور خود اس کے اوپر لیٹ کر فرحت کے ہونٹ چوس رھے تھے ماسٹر جی کی گانڈ فرحت کی پھدی کے اوپر تھی اور انکا لن فرحت کی پھدی کے ساتھ چپکا ھوا تھا اور فرحت کے ممے ماسٹر جی کے سینے تلے دبے ھوے تھے اور ماسٹر جی فرحت کے ہونٹ چوستے ھوے ساتھ ساتھ اپنی گانڈ کو ہلا ہلا کر اپنا لن فرحت کی پھدی کے ساتھ رگڑ رھے تھے فرحت بھی مزے سے اپنے دونوں بازو ماسٹر جی کی کمر پر رکھ کر زور سے بازوں کو بھینچ رھی تھی


عظمی نے مجھے کندھے سے ہلایا تو میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو عظمی نے اشارے سے اندر کی صورتحال کا پوچھا تو میں نے اسے اپنے آگے کردیا اور خود اسکے پیچھے کھڑا ھوگیا


عظمی نے جب اندر کا سین دیکھا تو اپنا ھاتھ منہ پر رکھ کر ایکدم پیچھے ہٹی جس سے اسکی گانڈ میرے لن کے ساتھ رگڑ کھا گئی


اور ساتھ ھی دوسرے ھاتھ سے اہنے کانوں کو چھوتے ھوے توبہ توبہ کرنے لگ گئی


میں نے عظمی کے منہ پر ہاتھ رکھا اور سے لیتے ھوے الماری کی دوسری نکر پر آگیا


مجھے ڈر تھا کہ عظمی کوئی آواز نہ نکال دے


میں الماری کے پاس اکر اندر دیکھنے کی جگہ تلاش کرنے لگ گیا تو مجھے ایک جگہ سوراخ نظر آیا جس میں کپڑا ڈوھنسا ھوا تھا میں نے آرام سے کپڑا باہر کی طرف کھینچا تو کافی بڑا سا شگاف نظر آیا شگاف اتنا بڑا تھا کہ ہم دونوں آسانی سے ایک دوسرے کے پیچھے کھڑے ہوکر اندر کا نظارا دیکھ سکتے تھے


میں نے انگلی ہونٹوں پر رکھتے ھوے عظمی کو خوموش رہنے کا اشارہ کیا اور عظمی کو اپنے آگے کھڑا کر دیا


الماری میں خانے بنے ھوے تھے جس میں کچھ کتابیں وغیرہ تھی اور کچھ خانے خالی تھی اور سوراخ والا خانہ بھی خالی تھا


سوراخ تھوڑا نیچے تھا اس لیے عظمی کو تھوڑا جھکنا پڑا جس سے اسکی گانڈ باہر کو نکل آئی اور عظمی تھوڑا سا نیچے جھک کر اپنے دونوں ھاتھ خانے کی پھٹیوں پر رکھ کر اندر کی طرف دیکھنے لگ گئی


میں بھی اسی سٹائل میں اسکے اوپر جھک کر اپنی ٹھوڑی اسکے کندھے پر رکھ کر اندر دیکھنے لگ گیا


عظمی نے سکول یونیفارم پہنا ھوا تھا اور میں نے بھی یونیفارم کا کپڑا ریشمی ٹائپ کا تھا جو قدرے ملائم تھا


میں پیچھے سے بلکل عظمی کی گانڈ کے ساتھ چپک گیا پہلے تو عظمی تھوڑا سا کسمکسائی مگر میں نے اسکا بازو دبا کر اسے کھڑے رھنے کا کہا تو وہ شانتی سے کھڑی ھوگئی،


اندر اب ماسٹر جی فرحت کے اوپر سے اٹھ کر اسکے ساتھ لیٹ گئے تھے جبکہ فرحت بلکل سیدھی ھی لیٹی ھوئی تھی ماسٹر جی سائڈ سے اسکے ساتھ لیٹے ھوے تھے



ماسٹر جی نے اپنی ایک ٹانگ فرحت کی ناف کے نیچے پھدی کے اوپر رکھی ھوئی تھی ایک ھاتھ سے فرحت کا مما دبا رھے تھے


فرحت بھی فُل مزے میں تھی اس نے اپنے دونوں ھاتھ اپنے سر کے پیچھے دائیں بائیں کر کے چارپائی کے سرھانے کی طرف لگے لوہے کے پائپ کو پکڑا ھوا تھا


ماسٹر جی مسلسل فرحت کے ہونٹوں پر لگی سرخی کو چوس چوس کر ختم کررھے تھے اب فرحت کے پنک ہونٹ ھی رہ گئے تھے ہونٹوں پر لگی ساری لپسٹک ماسٹر جی کھا چُکے تھے


پھر ماسٹر جی نے ہونٹوں کو چھوڑا اور فرحت کی ٹھوڑی پر زبان پھیرتے پھیرتے نیچے گلے پر آگئے ماسٹر جی کی لمبی زبان فرحت کہ گلے پر رینگتی کبھی نیچے سینے تک جاتی کبھی اوپر نیچے سے اوپر ٹھوڑی تک آتی فرحت بھی زبان کے لمس کو برداشت نھی کررھی تھی وہ ایکدم کبھی اوپر کو اچھلتی کبھی اپنے سر کو مزید اوپر کی طرف کرکے لمبی سی سسکاری لیتی اور آنکھیں بند کئے فرحت سسییییی افففففف امممممم کی آوازیں نکال رھی تھی ماسٹر جی نے ایسے ھی زبان کو پھیرتے پھیرتے زبان کا رخ دائیں کان کی طرف کیا جیسے ھی ماسٹر کی زبان نے فرحت کے کان کی لو کو ٹچ کیا تو فرحت ایک دم ایسے اچھلی جیسے اسے کرنٹ لگا ھو اور اس نے زور سے سیییی کیا اور دونوں بازوں ماسٹر جی کی کمر کے گرد ڈال کر زور سے جپھی ڈال لی اور نیچے سے گانڈ اٹھا کر ماسٹر جی کے لن کے ساتھ اپنی پھدی کا ملاپ کرانے لگ گئی
.ماسٹر جی بھی کسی ماہر چودو کی طرح اپنے حربے استعمال کررھے تھے اور فرحت بھی ماسٹر جی سحر میں پھس چکی تھی


ماسٹر جی نے جب دیکھا کہ فرحت کی کمزوری ادھر ھی ھے تو ماسٹر جی بار بار اپنی زبان کو کان کی لو پر رکھ کر زبان کو پھیرتے پھیرتے پیچھے سے اوپر لے جاتے اور پھر ویسے ھی اوپر سے نیچے تک لے آتے


پھر اچانک ماسٹر جی نے پورا کان منہ میں ڈالا اور نکال کر کان کے اندر


ھاااااا کر کے منہ کی ھوا کان میں ڈالی تو فرحت ایکدم کانپ سی گئی


ماسٹر نے اسی دوران اپنا ایک ھاتھ پیچھے لیجا کر فرحت کو تھوڑا سا اوپر کیا اور پیچھے سے قمیض اوپر کر دی اور پھر ھاتھ کو اگے لاکر آگے سے قمیض اوپر کر کے کندھوں تک لے گئے فرحت کے مموں پر قمیض تھوڑی سی پھنسی تھی مگر ماسٹر جی نے قمیض کے اندر ھاتھ ڈال کر پہلے دایاں مما باھر نکالا بھر بایاں اور قمیض کندھوں تک لے گئے


اب فرحت کا چٹا سفید پیٹ اور کالے رنگ کی برا میں چھپے چٹے سفید ممے نظر آرھے تھے ماسٹر جی نے اپنا ھاتھ برا میں ڈالا اور ایک ممے کو آزاد کردیا پھر وہاں سے ھی ھاتھ کو دوسری طرف لے جا کر دوسرا مما بھی بریزئیر سے نکال دیا۔۔۔


فرحت کے گورے گورے موٹے ممے دیکھ کر میرا تو برا حال ھورھا تھا میرا لن ایکدم اکڑا ھوا تھا اور عظمی کی گانڈ کی دراڑ میں کپڑوں سمیت گھسا ھوا تھا


میرا دھیان لن کی طرف اس لیے گیا کہ میں نے محسوس کیا کہ عظمی اپنی گانڈ کو پیچھے سے ہلا رھی تھی عظمی کہ جزبات کو دیکھ کر اور ماسٹر جی کا سیکس دیکھ کر میرا بھی حوصلہ بڑھ گیا اور میں نے اپنے دونوں ھاتھ آگے کر کے عظمی کے مالٹے کے سائز کے مموں پر رکھ دیے


عظمی نے گردن گھما کر میری طرف ایک نظر دیکھا اور پھر دوسری طرف دیکھنے لگ گئی


عظمی اب مسلسل گانڈ کو دائیں بائیں کر رھی تھی، میں نے آہستہ آہستہ مموں کو دبانا شروع کردیا


عظمی کو بھی یہ سب اچھا لگ رھا تھا اس لیے اس نے اپنا ایک ھاتھ میرے ھاتھ پر رکھ لیا اور جیسے جیسے میں مموں کو دباتا عظمی بھی ویسے ھی میرا ھاتھ دبانے لگ جاتی


اچانک مجھے ایک جھٹکا لگا


جب میں نے اپنا لن عظمی کے نرم نرم ھاتھ میں محسوس کیا عظمی نے اپنا دوسرا ھاتھ پیچھے لیجا کر میرا لن ھاتھ میں پکڑ لیا تھا اور اسے آہستہ آہستہ دبانے لگ گئی

دوسری طرف ماسٹر جی مزے لے لے کر فرحت کے دونوں مموں کو باری باری چوس رھے تھے ماسٹر جی کبھی مموں کے تنے ھوے نپلوں پر گولائی کے گرد زبان پھیرتے کبھی نپلوں کی سائڈ پر براون دائرے پر زبان پھیرتے اور کبھی ممے کو منہ میں بھر کر ہلکی ہلکی دندیاں کاٹتے اور فرحت اس سے فل انجواے کرتی ھوئی ماسٹر کے بالوں میں انگلیاں پھیر رھی تھی اور منہ چھت کی طرف کیے آنکھیں بند کرکے اففففف اسسسسسس سسییییی اففففف کی آوازیں نکال رھی تھی ماسٹر جی تقریباً دس منٹ تک دودہ کے پیالوں کو منہ لگا کر دودہ ختم کرنے کی کوشش کرتے رھے مگر دودہ کہ پیالے تھے کہ چھت کی طرف منہ اٹھاے ماسٹر جی کا منہ چڑھا رھے تھے


ماسٹر جی نے اب فرحت کے تھنوں کو چھوڑا اور مموں کے درمیان لائن میں زبان پھیرتے پھر فرحت کے اوپر اگئے اور زبان کو پیٹ کی طرف لے آے ماسٹر جی کُتے کی طرح زبان کو پیٹ پر پھیر کر پیٹ چاٹ رھے تھے جیسے پیٹ پر شہد لگا ھو


ماسٹر جی نے زبان کو فرحت کی ناف کی طرف گھمایا اور لمبی زبان کی نوک سے


ناف کے سوراخ کے چاروں طرف پھیرنے لگے


جیسے جیسے زبان ناف کے دائرے میں گھومتی فرحت بن پانی کے مچھلی کی طرح تڑپنے لگ جاتی


۔ماسٹر جی اب سیدھے ھوکر گُھٹنوں کے بل بیٹھ گئے
 

Rehan Q

New Member
19
10
19
Update no 13....


۔ماسٹر جی اب سیدھے ھوکر گُھٹنوں کے بل بیٹھ گئے اور اپنی قمیض اتارنے لگے پھر ماسٹر جی نے فرحت کا نالا کھولا اسی دوران فرحت نے شلوار کو پکڑ لیا مگر ماسٹر جی نے شلوار کو چھڑوا کر شلوار فرحت کے گُھٹنوں تک کی اور پھر باری باری دونوں ٹانگوں سے شلوار نکال کر نیچے پھینک دی


ماسٹر جی نے جب فرحت کلین شیو بالوں سے پاک چٹی سفید باہر کو پھولی ھوئی پھدی دیکھی تو ماسٹر جی کے منہ میں پانی آگیا


ماسٹر جی نے بنا وقت ضائع کئے اپنی لمبی زبان نکالی اور سیدھی فرحت کی پھدی کے دانے پر رکھ کر کتے کی طرح دانے کو چاٹنے لگ گئے


جیسے ھی ماسٹر کی زبان نے پھدی کے دانے کو چھوا تو فرحت تین فٹ چارپائی سے اچھل کر واپس گری اور اس نے ھاےےےےےےےے میں گئی کہ آواز نکالی


تو ماسٹر جی نے اپنے دونوں ھاتھوں سے فرحت کے بازو پکڑ کر اسکو چارپائی پر دبا دیا کہ اب یہ دوبارا اوپر نہ اٹھے


ماسٹر جی اب زبان کی نوک سے پھدی کے اوپر والے حصہ ھڈی کی جگہ پر کُتے کی طرح زبان کو پھیرنے لگ گئے


فرحت کی حالت ایسی تھی جیسے ابھی اسکی جان نکلنے والی ھو اس نے دونوں ٹانگیں چھت کی طرف کھڑی کی ھوئی تھی اور اسکی ٹانگیں کانپ رھی تھی


اور ماسٹر جی کی زبان اپنا جادو دیکھانے میں مصروف تھی


اِدھر عظمی مسلسل میرا لن دباے جارھی تھی اور میں اسکے ممے دبا رھا تھا


مجھے نجانے کیا سوجی میں نے اپنا یک ھاتھ نیچے کیا اور اس سے پہلے کہ عظمی کچھ سمجھتی میں نے اپنا ہاتھ عظمی کی شلوار میں گھسا دیا اور اپنی چاروں انگلیاں عظمی کی چھوٹی اور نرم سی پھدی پر رکھ کر دبانے لگ گیا


عظمی کو ایکدم کرنٹ سا لگا اس نے جلدی سے میرا ھاتھ پکڑ لیا مگر میں مسلسل ایسے ھی پھدی کو دباے جارھا تھا عظمی نے میرا لن چھوڑ کر اپنی پھدی کے اوپر رکھے ہوے میرے ھاتھ کے اوپر رکھ دیا تھا میرا لن آزاد ھوتے ھی دوبارا عظمی کی گانڈ میں گھس گیا عظمی کو اب مزا آنے لگ گیا تھا پہلے وہ میرا ھاتھ باہر کو کھینچ رھی تھی پھر میرے ھاتھ کو اپنی پھدی پر دبانے لگ گئی اسکی پھدی پہلے ھی کافی گیلی ھوچکی تھی میری انگلیاں آپس مین چپک رھی تھی میں زور سے تیزی تیزی سے ھاتھ اوپر نیچے کرنے لگ گیا اور پیچھے سے گھسے مارنے لگ گیا اور ایک ھاتھ سے ممے کو دبانے لگ گیا عظمی ایک دم کانپنے لگ گئی اور اس نے اپنی گانڈ کو فل پیچھے میرے لن کے ساتھ جوڑ دیا میرا لن عظمی کی موٹی گانڈ کے دراڑ میں پھنس گیا اور اس نے اپنی گانڈ کو زور سے بھینچ کر میرے لن کو جکڑ لیا اور ساتھ ھی اپنی ٹانگوں کو میرے ھاتھ سمیت جکڑ لیا اور لمبے لمبے سانس لینے لگ گئی مجھے اچانک محسوس ھوا جیسے گرم گرم مادہ میری انگلیوں سے بہتا ھوا عظمی کی ٹانگوں سے نیچے جارھا ھے


میں نے غور کیا تو عظمی کی پھدی لِیک کر رھی تھی


ادھر ماسٹر جی نے اپنا کام چَک کے رکھا ھوا تھا


ماسٹر جی فرحت کی پھدی کو کھویا ملائی سمجھ کر مزے لے لے کر کبھی چوستے کبھی چاٹتے ماسٹر جی پھدی چاٹنے کے ساتھ ساتھ اپنی ایک انگلی کو بجی پھدی کے اندر باہر تیزی سے کر رھے تھے کہ


اچانک فرحت کی ٹانگیں اکڑنا شروع ھوگئی اور فرحت کا جسم ایک دم کانپا اور فرحت کی پھدی سے ایک مادہ اور پانی سے ملی جلی پھوار نکلی جو سیدھی ماسٹر جی کے منہ کے اندر اور باھر گری پھر دوسری تیسری ماسٹر جی کا منہ فرحت کی منی اور پانی سے بھر گیا یہ سب دیکھ کر میرا تو دل خراب ھونے لگ گیا


اور عظمی نے جب یہ سب کچھ دیکھا تو اس نے ایکدم اپنے منہ پر ہاتھ رکھتے ہوے

ہپھھھ کیا اور اس کے منہ سے الٹی نکل کر کچھ اسکے ہاتھ پر اور کچھ سیدھی الماری پر گری الٹی کرتے ہوے اس نے کھانسی لی تو اسکی آواز ماسٹر جی اور فرحت نے بھی سن لی

ماسٹر جی کو ایکدم کرنٹ لگا اور چھلانگ مار کر چارپائی سے نیچے اترے اور گبھرا کر پردے کی طرف دیکھتے ھوے بولے کون ھے،،،
کون ھے
میرے تو ایکدم سے پاوں تلے سے زمین ھی نکل گئی میں نے عظمی کو بازو سے پکڑا اور دروازے کی طرف دوڑ لگا دی اور جلدی سے باہر نکلے اور جیسے ھی میری سامنے نظر پڑی تو،،،،،،،،،،،
 
Top